The news is by your side.

سب اچھا ہے

گزشتہ ایک سال سے وطن عزیز خطرناک سیاسی ہواؤں کی لپیٹ میں ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماءایک دوسرے کو پاک دامن نہ ہونے کے طعنے دے رہے ہیں۔ تمام سیاسی حریف ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کررہے ہیں اور لیڈروں کے کرتا دھرتا نے عوام کے دلوں میں اپنے لیڈروں کو تزئین و آرائش سے اپنے دلوں میں سجا رکھا ہے اور جو ملک سے باہر ہیں وہ عوام کی خیر خواہی کے گیت گارہے ہیں اور قوم کے مسائل اس سیاست کے تحت جمود کا شکار ہوگئے ہیں۔ صوبوں میں بے چینی پائی جاتی ہے جو اقتدار کی سیڑھی پر ہے، وہ نیک اور پارسا ہیں، جو اپوزیشن میں ہیں وہ عوام کے خیر خواہ ہیں اور اپنی باری کے انتظار میں ہیں کہ کب ہمارا نام بھی نیک اور پارسا لوگوں میں شامل ہوگا۔

اب ان حالات میں کوئی وزیر ِدیانت دار ‘ تندہی سے قومی یکجہتی کو دیکھتے ہوئے عوامی سطح پر کسی اچھی سرگرمی کو فروغ دیتا ہے تو اس زمانے میں جہاں سختیاں جھیل کر بھی عوام مسکراتے ہوں تو یقیناً اس شخصیت کا کارہائے نمایاں کارنامے کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں ہوگا۔

گزشتہ دنوں ایک خبر اخبارات میں آئی کہ قومی ادارہ برائے امراض خون کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر شمسی کو صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے 90 کروڑ روپے فراہم کئے اور اس رقم سے این آئی بی ڈی میں بون میرو ٹرانسپلانٹ مفت کیا جائے گا، اس خبر کو پڑھنے کے بعد ذہن بے یقینی کا شکار تھا کہ اس خبر میں کتنی حقیقت ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے راقم نے قومی ادارہ برائے امراض خون کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر شمسی کو فون کیا اور ان سے اس خبر کی سچائی کے بارے میں معلوم کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جی ہاں وزیرِ صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے ہمارے ادارے کا دورہ کیا اور یہ رقم فراہم کی۔ آپ یقین جانیں قارئین گرامی میں نے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو کو دل سے دعا دی کہ ربِ ذوالجلال ان کو اپنے سائے میں رکھے کہ انہوں نے کینسر کے مریضوں کا جس طرح ساتھ دیا، میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، ان کی اس گراں قدر خدمات کو شکوک و شبہات سے برملا ہو کر تاریخ ان کے اس کارنامے کو سنہری الفاظ میں ضرور لکھے گی۔

عام آدمی کو نہیں معلوم کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا ہوتا ہے، یہ تو اس خاندان سے پوچھیں جن کے مریض اس مرض میں مبتلا ہیں (خدا دشمن کو بھی اس اذیت سے دوچار نہ کریں) یہ خون کا کینسر ہے اور ایک بات بتادو کہ اس وقت پورے پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹ صرف اور صرف ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفاءدی ہے۔

انہوں نے فون پر راقم کو بتایا تھا کہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے مزید تعاون کا یقین دلایا ہے اور نہ جانے کتنے خون کے کینسر کے مریض ڈاکٹر سکندر میندھرو کے اس قابل ستائش اقدام سے مستفید ہوں گے اور میرا یقین ہے کہ اللہ ڈاکٹر سکندر میندھرو کو اس نیک کام کا اجر دے گا۔

ادھر ڈاکٹر طاہر شمسی کے ادارےمیں غریب اور نادار مریضوں کو مفت علاج کی سہولیات بھی مہیا کی جارہی ہیں۔ میری صحت کے حوالے سے کچھ گزارشات ڈاکٹر سکندر میندھرو سے ہیں کہ وہ اپنی حکمت و دانشمندی سے ان مسائل پر بھی بھرپور توجہ دیں کہ سیاسی فرشتے کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں کہ آپ صوبہ سندھ کے اسپتالوں پر خصوصی توجہ دیں، جن کی صورت حال بگڑ نہیں رہی بلکہ بگڑچکی ہے کہ ان اسپتالوں میں عوام کے ساتھ گھناؤنے سلوک ہورہے ہیں، ان سرکاری اسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ تو ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ ان میں آکسیجن ناپید ہوتی ہے۔

ان اسپتالوں میں تین یا چار ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹر ہوتے ہیں اور جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر ہیں وہ اکثر دیر گئے آتے ہیں اور اپنے کمروں میں بیٹھتے ہیں چونکہ ہاؤس جاب کرنے والے ناتجربے کار ہوتے ہیں، مریض انہی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔ جب یہ لاچار اور مفلس مریض پرائیویٹ اسپتال جاتے ہیں تو ان غریبوں کے دامن میں تو صرف حسرتیں ہوتی ہیں کہ وہ ان پرائیویٹ اسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کرپاتے۔

ڈاکٹر سکندر میندھرو صاحب اس نوجوان نسل پر ایک رحم اور کردیں، پوش اور کچی آبادیوں پر حکیموں نے اشتہارات جو دیواروں پر تحریر ہوتے ہیں، ان تحریروں کو ہم الفاظ کی شکل اس آرٹیکل میں نہیں دے سکتے۔ سوچیں کہ ہم کتنے مجبور ہیں کہ برائی کو برائی نہیں لکھ سکتے، ان جعلی حکیموں کی وجہ سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تباہی کے کنارے لگ چکے ہیں۔ان نیم حکیم خطرہ جان حکیموں کے مطب پہلی فرصت میں بند کروائیں، یہ بھی ایک عبادت ہے۔

میڈیکل کا یہ حال ہوچکا ہے کہ ایک تیکھے موضوع پر روشنی ڈال رہا ہوں، آج کل چھوٹے اخبارات میں اکثر اشتہارات پرنٹ ہوتے ہیں کہ کیا آپ نے میٹرک، انٹر کیا ہے تو پہلی فرصت میں آئیں اور کچھ ہفتوں میں الٹر ا ساؤنڈ کا کورس کریں، یہ کسی المیے سے کم نہیں جبکہ اس کے لئے ایم بی بی ایس ہونا لازمی ہے۔ یہ کورس کرانے والے امیدواروں کو امریکہ کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ ترقی یافتہ ملک ہے، وہاں بھی الٹرا ساؤنڈ کے کورس ہوتے ہیں تو پھر آپ کیوں نہیں کرسکتے۔

امریکہ کے حوالے سے روشنی ڈال دوں، وہاں4 سال کا الٹرا ساؤنڈ کا کورس ہوتا ہے پھر بھی اسے ڈاکٹر کی ڈگری نہیں دی جاتی جبکہ یہاں چند ہفتوں کے کورس کے بعد لوگوں نے گلی اور محلے میں الٹرا ساؤنڈ سینٹر کھول لئے ہیں۔ اب الٹرا ساؤنڈ سکھانے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر ان کے لواحقین کو ڈاکٹر یا کا الٹرا ساؤنڈ تجویز کرتا ہے تو یہ سکھانے والے کیا اس شخص سے اپنے لواحقین کا الٹرا ساؤنڈ کروانا پسند کریں گے اور پھر ایسے لوگ جو دو یا چار مہینے کا کورس الٹرا ساؤ نڈ کا بغیر ایم بی بی ایس کے کرتے ہیں۔ وہ بھی بڑی عزت و وقار سے اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلواتے ہیں تو جس نے میں5 سال لگائے وہ تو پھر بے چارا ‘ دہی بڑے بیچے۔

لہٰذا ڈاکٹر سکندر صاحب ان نام نہاد الٹرا ساؤنڈ سینٹرز پر پابندی عائد کریں، کیونکہ الٹرا ساؤنڈ کے کورس کے لئے ایم بی بی ایس کرنا لازمی ہے۔ صوبائی وزیر صحت چونکہ خود ڈاکٹر ہیں تو وہ میڈیکل کے حوالے سے ہر چیز کو سمجھتے ہیں، لہٰذا ہم کچھ برائیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں جو صحت کے حوالے سے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ اگر اتفاق سے کوئی ایماندار وزیر آجائے تو اسے اس کے محکمے کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا جاتا ہے کیونکہ آگے لوگوں کے مفادات ہوتے ہیں، اگر کسی ایماندار وزیر نے مسائل کی کھڑکیاں جو کھلی ہیں اگر بند کردیں تو جن کے مفادات ہیں وہ تو پھر دربدر ہوجائیں گے۔

پاکستان میں ادویہ سازی کے تقریباً 4 ہزار لائسنس جاری کئے گئے ہیں جبکہ ادویہ ساز ادارے لاتعداد ہیں، لاکھوں میڈیکل اسٹورز ہیں، اچھی بات ہے مگر کتنے درست سمت میں کام کررہے ہیں، وہ صرف ہزاروں میں ہیں۔ میڈیکل کے شعبے کو بربادی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے، میڈیکل کے شعبے کا تو یہ حال ہوچکا ہے جو دن میں الیکٹریشن، پلمبر، میسن اور چونا سفیدی کے کام پر مامور ہے، وہ شام کو کسی میڈیکل اسٹور میں ڈاکٹروں کے نسخے دیکھنے کے بعد دوائیں بیچ رہا ہے۔

یہ ملکی قانون ہے کہ کسی بھی میڈیکل اسٹور میں ”فارمسٹ“ کا ہونا لازمی ہے، کچی آبادی میں سینکڑوں میڈیکل اسٹور ایسے بھی ہیں جہاں دوائیاں خریدنے والے غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، وہاں غریبوں کو وہ دوا دے دی جاتی ہے، جس کی مدت ختم ہوچکی ہوتی ہے، ایسے میڈیکل اسٹور بھی ہیں جو مریض کا حال پوچھ کر اسے اینٹی بایوٹک دے دیتے ہیں، تاکہ مریض کا مرض ختم ہو اور پھر وہ شخص بے دریغ اس دوا کو استعمال کرکے مزید بیماریاں پال لیتا ہے اور پھر اس کے بعد ہزاروں روپے ڈاکٹر کی نذر ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو زندگی کو بھی خدا حافظ کہنا پڑجاتا ہے، لہٰذا میڈیکل اسٹورز کو پابند کیا جائے کہ وہ ”فارمسٹ“ کا ہر میڈیکل اسٹور میں خصوصی طور پر”سرٹیفکیٹ“ رکھیں، جو ایسا نہ کرے اس میڈیکل اسٹور کو سیل کردیا جائے۔

نوجوانوں کے حوالے سے ایک بات پر اور روشنی ڈالوں گا، روز موبائل پر مختلف نام نہاد لوگ نوجوانوں کی بیماریوں کے حوالے سے ایس ایم ایس کرتے ہیں اور ایک ہفتے کا کورس ہزاروں روپے میں ہوتا ہے اور دوائی ٹھکانے پر پہنچانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ہم نے بحیثیت اخبار نویس کے ایک ایس ایم ایس میں دیے گئے نمبر پر فون کیا تو موصوف فرمانے لگے کہ جناب یہ دوائی جرمنی کی ہے، ہم نے سوال کیا، آپ ڈاکٹر سے بات کروائیں، تو جواب ترشی میں دیا گیا کہ ڈاکٹر کیا بیچتا ہے، اسے کیا معلوم، جرمنی میں کیا ہورہا ہے، یہ جرمنی کی دوائی ہے، آپ ایک ہفتے اسے استعمال کریں پھر اس کا رزلٹ دیکھیں اور کئی نوجوان ان دوائیوں کے زیر اثر اپنی صحت تباہ کر بیٹھے ہیں، ایسے نمبروں کو بلاک کیا جائے۔

میری محترم صوبائی وزیر صحت جناب سکندر میندھرو صاحب سے گزارش ہے کہ وہ خود سروے کریں اور ان جیسے لوگوں کا گرینڈ آپریشن شروع کرکے ان تمام خرابیوں کا سدباب کریں، جن باتوں کا تذکرہ ہم نے آپ کے سامنے کیا ہے، ان انسانیت کے دشمنوں کو عبرت ناک سزا دیں، تاکہ آپ کا نام تاریخ میں سنہری لفظوں میں مفکر حضرات لکھیں اور یہی ایک نیک انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں