The news is by your side.

پڑھوں گا تو گھر کیسے چلے گا؟

یہ کہانی ہے عاکف کی جو کہ ایک چودہ سال کا بچہ ہے اور پان کی دکان پر کام کرتا ہے۔وہ پچھلے 32 مہینوں سے یہاں کام کرہا ہے کیونکہ ایک سٹروک کے نتیجے میں اس کے والد کا نچلا دھڑ چلنے پھرنے سے قاصر ہو گیا اور وہ صرف گھر کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس کی والدہ اس کی کم عمری میں ہی چل بسی تھیں۔

اس کے چار بہن بھائی ہیں۔بڑی بہن کی شادی کچھ سال پہلے ہوگئی اور چھوٹی بہن گھر پر اپنے والد کے پاس رہتی ہے۔ اس کے دونوں بھائی اس کے ساتھ نہیں رہتے۔ والد کے فالج ہونے پر بڑا بھائے لاہور چلاگیا اور دوسرا بھائی جس کی عمر تقریباً 26 ہے ‘ کام کی تلاش میں ملتان چلا گیا لیکن اس نے کام چھوڑ دیا اور نشہ کا عادی ہوگیا ۔پچھلے ایک سال سے وہ گھر نہیں آیا۔وہ اپنی چھوٹی بہن جس کی عمر 11 ہے اس سے بہت پیار کرتا ہے اور اس نے اپنی تعلیم نہیں چھوڑی۔اس کی ایک خالہ اس کو گھر پر ہی پڑھاتی ہے۔اگرچہ وہ پڑھتا نہیں لیکن پھر بھی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔اس بارےمیں‘ میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے کہا ’’ دل کرتاہے پڑھنے کو پر گھر کیسے چلےگا‘‘۔

اگرچہ 10-9 مہینے پہلے تک وہ سکول جاتا تھا لیکن والد کی بیماری کے باعث اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا جو یہ ذمہ داری اٹھاتا اور اس کی بہن بھی بڑی نہ تھی جو کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کرسکتی۔جب اس کے گھریلو مالی مسائل مزید بگڑ گئے تو مجبوراً اس کو سکول چھوڑ کر پان کی دکان پہ کام کرنا پڑا۔گھر میں صرف وہی ہے جو بجلی پانی کابِل ، بہن اور والد کی خوردونوش کا خرچ دیتا ہے۔ وہی ہے جو ادویات اور روزانہ کے گھریلو استعمال کی چیزیں خریدتا ہے۔

میں نے جب اس کے مشاغل کا پوچھا تو اس نے کہا کہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا پسند ہے لیکن چونکہ وہ صبح آٹھ سے رات نو تک کام کرتا ہےاس لیے وقت نہیں مل پاتا۔ جب میں نے اس سے پسندیدہ کھانے کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا جو مل جائے کھانے کو۔

وہ ہفتے کے ساتوں دن کام کرتا ہے اور عموماً لوگ جب لوگ سیریٹ ، مشروبات، چِپس اور جوس خریدتے ہیں تو ان کی دی گئی ٹِپ سے 300-200 کماتا ہے۔گھر آکر وہ تمام رقم اپنے والد کو دے دیتا ہے اور اپنے پاس 20-10رکھتا ہے۔ وہ طے شدہ رقم نہیں کماتا کیونکہ اس کا انحصار گاہک پر ہوتا ہے کہ کتنی رحمدلی کا مظاہرہ کر کے وہ بخشش ( ٹِپ) دیتے ہیں۔

اس کی جدوجہد کے بارے میں جاننے کے لیے اس سرسری سی گفتگو میں میں نے اس کے برے دنوں کے بارے میں استفسار کیا اوراس نےکہا اس کےبرے دن وہ ہوتے ہیں جب گاہک پیسے دیے بغیر چیزیں لے جاتے ہیں اور ان کی وصولی بھی مالک اس کے پیسوں سے کرتا ہے۔اس کے ساتھ ایسا دودفعہ ہو چکا جب مالک نقصان بھی جبراً اس سے پورا کرواتا ہے۔اکثر اوقات اس کا مالک بغیر اجرت کے زبردستی اس سے کام لیتا ہے۔ اگرچہ وہ پان کی دوکان کا ملازم نہیں اور صرف بخشش کے حصول کے لیے گاہکوں کی خدمت کرتا ہے ۔ دوکان کا ملازم نہ ہونے کے باوجود ، مالک کی حکم عدولی پر وہ مار بھی کھاتا ہے۔

حال ہی میں ہونے والا واقعہ جب اس کی بہن اور والد گاؤں شادی پر گئے تھے لیکن اس کو تین دن چھٹی نہ ملنے کے سبب کام کی جگہ پر ہی رہنا پڑا۔ لگاتار دو دن کام کرتے رہنے پر اس نے مالک سے اس کی رہائش گاہ میں سونے کی درخواست کی جہاں باقی ملازمین اور بیرے بھی سوتے ہیں۔

جب وہ سورہا تھا تو کسی نے اس کی اجرت چُرالی اور اس کے پاس پھر سے کچھ نہ رہا۔ایسے بہت سے عاکف دنیا کے مختلف کونوں میں مایوسی ، ناامیدی اور مصائب کا شکار ہیں۔

اس کا جرم کیا ہے ؟ ایسی کونسی غلطی جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی زندگی کا مستحق ٹھہرا؟ کیا ایسا کوئی نہیں جو اس کے اس حالات کا خاتمہ کرسکے اور اس کی تکالیف کو کم کرسکے؟ کیا ہم انسان ‘ انسانیت کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ لے کر ایسے لوگوں کی مدد نہیں کرسکتے جو منہ میں سونے کاچمچ لے کر نہیں پیدا ہوئے؟۔

بہت سی این جی اوز کے سرگرم ہونے کا باوجود ہم میں سے کتنے ہیں جو غربت میں دھنسے ان خاندانوں کی مدد کرسکیں؟ ہم صرف اچھی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اوراپنی آنے والی نسلوں کے اچھے مستقبل کی امید کرسکتے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں