تحریر : حنظلہ طیب
بات جہاں بھی پاکستان کے ریاستی مفادات کے خلاف ہو کسی نہ کسی حوالے سے سوئٹزر لینڈ کا نام ضرور سامنے آتا ہے۔ پاکستان کے خلاف کوئی عوامی احتجاج ہو، بلوچ حقوق پر گمراہ کن پراپگینڈہ ہو یا سوئس اکاؤنتس میں پڑا پاکستان کا لوٹا ہوا مال۔ ہمیں ہر جگہ سوئٹرز لینڈ کھڑا نظر آتا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ سوئٹزر لینڈ ہر پاکستان مخالف حرکت کے پیچھے بنیادی کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔
وجہ جاننے سے پہلے ہم سوئٹزرلینڈ میں اسلام کے متعلق رائے کا جائزہ لیں گے۔ نومبر 2016 میں سوئٹزرلینڈ میں تامیڈیا پبلشنگ ہاؤس نامی فرم نے ایک سروے کروایا۔ جس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا اسلام کی وہی حیثیت ہونی چاہیے جو سوئٹزرلینڈ میں عیسائیت اور یہودیت کی ہے؟ آپ کو جان کر حیرت ہو گی15 ہزار سے زائد سوئس شہریوں میں سے 61 فیصد لوگوں نے جواب دیا “بالکل نہیں”۔
سوئس شہریوں کی اسلام سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننا تو محقیقین کا کام ہے۔
سرِ دست آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سوئٹزر لینڈ جو پاکستان کی بلا وجہ مخالفت میں آگے آگے ہوتا ہے۔ وہ پاکستانیوں سے کمائی کرنے میں بھی بہت آگے ہے۔ سوئٹزرلینڈ کا 100 ارب ڈالر کا سرمایہ پاکستان میں لگا ہوا ہے، جس سے روزانہ کروڑوں روپے کی آمدن سوئس حکومت کو ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے وہ لوٹے ہوئے کھربوں روپے بھی سوئس بینکوں کو روزانہ کروڑوں روپے کی آمدن دے رہے ہیں جو سیاست دانوں نے وہاں رکھوائے ہیں۔
ہم کتنی عجیب قوم ہیں! رمضان میں پھل مہنگا ہونے پر ہم بائیکاٹ کا شور مچا دیتے ہیں لیکن پاکستان کی جڑوں پہ وار کرنے والے ملک کو ہم کروڑوں روپے کا روزانہ کاروبار فراہم کرتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ سوئٹزرلینڈ کی پاکستان دشمنی پر اسے ایک سبق سکھایا جائے؟ چند مثالیں دیتا ہوں کہ حکومتیں اپنے ریاستی مفاد کےلیے کیا کیا کر سکتی ہیں؟ ابھی چند دن قبل روس نے فیس بک کو دھمکی دی ہے کہ ہم اسے روس میں بند کر دیں گے اگر فیس بک نے ہماری شرائط نہ مانیں تو۔
چین نے دھمکی نہیں دی بلکہ اپنی شرائط منوانے کےلیے سیدھا ہی واٹس ایپ کو بند کر دیا۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو اپنے ریاستی مفاد کے تحفظ کےلیے دیگر ۔
تو کیا ہم ایک خود مختار اور آزاد قوم ہونے کے ناطے سوئٹزرلینڈ کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے؟ کیا ہم اپنے ملک میں سوئٹزرلینڈ کے خلاف مظاہرے نہیں کر سکتے؟ اور کچھ بھی نہیں تو کیا صرف سوئٹزرلینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اسے سبق نہیں سکھا سکتے؟ ۔
بھارت میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ جو بھارتی چین کا ایک لاکٹ بھی خریدتا ہے‘ وہ دراصل چینی فوجیوں کی بندوق میں ایک گولی ڈالتا ہے تا کہ ایک بھارتی مر سکے۔ ہم کیوں نہیں اپنے ریاستی مفاد کےلیے ان بنیادوں پر سوچ سکتے؟ یاد رکھیے ہماری خود مختاری جب تک ہمیں خود عزیز نہیں ہو گی۔ کسی دوسرے کو بھی نہیں ہو گی۔ آج سے سوئٹزرلینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور سوئس حکومت کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں