پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج ، سماجی کارکن اورمصنف حکیم محمد سعید 9جنوری 1920بروز جمعہ ہندوستان کے علاقے دہلی میں پیدا ہوئے۔ لکنت کی وجہ سے بچپن میں زبان لڑکھڑائی مگر قوت ارادی اور مسلسل مشق سے آپ نے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پا لیا۔ بچپن شرارتوں میں گزارا لیکن کم عمری میں ہی بھائی کے ساتھ مل کر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
حکیم محمد سعید کی خواہش صحافی بننا تھی مگر خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے حکمت سے ہی وابستہ رہے، جذبہ انسانیت کی وجہ سے ’ہمدرد‘ کا نام مشہور ہوا اور یہ تقسیم سے قبل ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا، پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہمدرد ایشیاء میں طب ِ مشرق کا سب سے بڑا ادارہ بن کر ابھرا۔
تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی شروع ہوئی تو خوش قسمتی سے حکیم سعید 9جنوری 1948کو پاکستان کے اس وقت کے دارالخلافہ کراچی پہنچے ۔ ہندوستان سے سوائے نسخوں کے آپ کچھ ساتھ نہ لائے، جائیداد ، کاروبار اور آسائش کو چھوڑ کر پاکستان آئے تو ایک بار پھر اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔
دہلی میں پیکارڈ گاڑی میں سفر کرنے والے حکیم محمد سعید نے کراچی کے گلی کوچوں میں پیدل سفر کر کے روح افزاء اور گرائپ واٹر کی بوتلیں فروخت کی یہاں تک کے اُن کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے، کچھ عرصہ بعد حالات بہتر ہوئے تو پچاس روپے ماہانہ کرائے پر دوکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ اقساط پر فرنیچر حاصل کر کے مطب کا آغاز کیا۔
کٹھن سفر کامیابی سے جاری رہا اور پھر ناظم آباد المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی گئی جس نے ہمدرد فاؤنڈیشن کی راہ ہموار کی، اس کے بعد تو قسمت حکیم سعید پر مہربان ہوگئی اور پھر یہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے۔
طب یونانی کی اہمیت اور اُس کو فروغ دینے والے حکیم محمد سعید نے نوجوانوں اور نونہالوں میں تعلیم کا شعور پیدا کرنے اور معاشرے کی سب سے بڑی برائی منشیات کے خلاف اعلان جنگ کیا اور آخری وقت تک اپنے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
بچوں سے بے پناہ محبت اور نوجوانوں کو صحت زندگی گزارنےکے لئےکئی کتابیں رسالے اور میگزین شائع کرنے کے علاوہ ایسی محفلیں منعقد کرواتے تھے‘ جن سے عوام کو مثبت چیزوں کی طرف راغب کیا جاسکتا تھا۔
ضیاء الحق کے دور میں صوبائی وزارت کا عہدہ ملنے کے باوجود اپنے مریضوں کو نہ صرف دیکھتے بلکہ ان کا مفت علاج بھی کرتے تھے۔ 1993سے 1996تک گورنر سندھ کے عہدے پر فائض رہے۔
ہمدردنونہال اسمبلی سے سن 16اکتوبر 1998بروز جمعے کو اپنے آخری خطاب میں کہا کہ “منشیات کا کاروبار وڈیرے، سیاستدان کر رہے ہیں۔ان افراد کے بیرون ملک 80ارب ڈالر اثاثے ہیں، ملکی دولت لوٹنے والے کو گولی مار دینی چاہے۔ منشیات کے خلاف جدو جہد ایک خوفناک جنگ ہے‘۔
اتنےسخت اور کڑوے الفاظ استعمال کر نے کے اگلے ہی روز 17اکتوبر 1998بروز ہفتے صبح مطب پہنچتے ہی گولیوں کی برسات کر دی گئی۔ اس کے نتیجے میں حکیم سعید خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف تھے اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تھی ۔ حکیم سعید سانحے کے ہوتے ہی میاں محمد نواز شریف نے بذریعہ ٹیلی ویژن ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرکےحکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو مورود الزام ٹھہرا کر جمہوریت کا تختہ اُلٹا اور سندھ میں گورنر راج لگا کر آپریشن کا آغاز کیا۔
اس آپریشن دوران کئی افرادکو گرفتار جبکہ متعدد کو پولیس مقابلوں میں قتل کیا گیا، ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس میں ایم کیو ایم کے ملزمان کے تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے، بعد ازاں ریٹائرڈ کرنل اقبال نیازی نے ایک ٹی وی پروگرام میں آکر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ رپورٹ صحیح نہیں تھی۔
دوسری جانب ایم کیو ایم نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی اور انہیں اپنے خلاف سازشوں کا تسلسل قرار دیا۔حکیم سعید قتل کے الزام میں گرفتار افراد کو 16 سال بعد سپریم کورٹ نے 2014 میں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر باعزت بری کردیا۔
حکیم سعید کے قتل کے پیچھے ایم کیو ایم تھی یا کوئی اور لیکن یہ بات طے ہے کہ اس سانحے میں قوم ایک ایسے علم دوست انسان سے محروم ہوگئی جس کے دل میں پاکستان اور اس کے شہریوں کے مسائل کا درد پوری طرح موجزن تھا ‘ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی طرح حکیم سعید کے اصل قاتلوں کا بھی آج تک سراغ نہ مل سکا اور یوں ہم بحیثیت قوم اپنے ایک اور محسن کے سامنے ان کی شہادت کے 19 سال بعد بھی شرمند ہ ہیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں