The news is by your side.

اساتذہ کی مار ‘ اسکول چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ

آج میں آپ کو ایک تیرہ سالہ بچے فراز کی کہانی بتانا چاہتا ہوں جو ایک رکشہ ڈرائیور کا معاون ہے۔ اس کے دوبھائی اور تین بہنیں ہیں۔ اس کے والد سکیورٹی گارڈ جبکہ والدہ گھریلو ملازمہ ہیں۔ اس کے بھائی ٹیکسٹائل مِل میں کام کرتے ہیں۔ بہنیں شادی شدہ جبکہ ایک چھوٹی بہن 10 سال کی ہے۔

اس انٹرویو کا مقصد اس کا اور اس کے بہن بھائیوں کا اسکول چھوڑنا تھا۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ناطے میرا ماننا ہےکہ اگر ہمیں اپنا تعلیمی نظام بدلنا ہے تو اس کے لیے اپنی خامیوں کو جاننا ہوگا۔ چنانچہ میں نے اس کے گھر والوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھا۔ اس کے بڑے بھائی نے دسویں تک تعلیم حاصل کی جبکہ بڑی بہنوں نے دسویں اور پانچویں تک پڑھا ۔ اس کی سب سے چھوٹی بہن محض ایک مہینہ سکول گئی جبکہ والدین بچپن سے کام کرنے کی وجہ سے ان پڑھ ہیں۔

فراز نے مجھے بتایا کہ اس نے جماعت چہارم تک تعلیم حاصل کی لیکن اسکول میں زیادہ گھنٹے ، اساتذہ کا زبانی اور جسمانی تشدد اور کھیلنے کے لیے کوئی میدان نہ ہونے کے سبب ناخوش ہو کر تعلیم ترک کردی۔ تعلیم ترک کرنے کے فوراً بعد چائے کی دوکان پر اس نے 3000 ماہوار کے عوض بیرے کی ملازمت کی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں یہ نوکری اس نے اپنے مالک کی مار پیٹ کے باعث چھوڑ دی جو کچھ منٹ یا سیکنڈز کی دیری پر اس کو مارتا تھا۔

ایک دن بھی ضائع کیے بغیر اس نے موٹر ورکشاپ پر ماہانہ 5000 کے لیے ملازمت کرلی۔ یہ کام پچھلے کاموں سے قدرے مختلف تھا لیکن حالات ہنوز جوں کے توں تھے۔ اس کا نیا مالک بھی اس کو گالیاں دیتا اور زدوکوب کیا کرتا تھا ‘ اور یہ گالیاں پہلے سے کہیں زیادہ دردناک تھیں۔ کچھ عرصہ کام کے بعد اس ملازمت کو بھی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب ہی اس کے پچھلے مالک نے اپنے نئے ملازم سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے دوبارہ فراز سے رابطہ کیا لیکن اس دفعہ دو شرائط پر پہلی یہ کہ وہ اس کو گالیاں نہیں دے گا جبکہ دوسرا اس نے تقریباً دگنی تنخواہ یعنی 5000 کا مطالبہ کیا۔

کمسن ملازم کا قتل ‘ مسلم لیگی رکن اسمبلی کی بیٹی مقدمے سے بری

فراز نے اپنےموجودہ کام سے مطمئن ہو کر ایک سال کام کیا۔ ایک دفعہ اس کی ملاقات اپنے سکول کے پرانے دوستوں سےہوگئی ‘ بعد میں انہوں نے ہر ہفتے ملنے کے منصوبے بنائے۔ فراز نے اپنے مالک سے ہفتے کےآخر میں چھٹی کی درخواست کی تاکہ وہ اپنے دوستوں سے مل سکے لیکن اس کے مالک نے اس کی یہ درخواست مسترد کردی لہذا اس نے یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔

فراز کے مطابق وہ اپنی بے رنگ و نور زندگی سے تنگ آگیا تھا اس نے دوبارہ کام نہ کرنے کا اور دن رات اپنے دوستوں کے ساتھ شغل مستی کرنے کا سوچا ۔ وہ ڈھائی سال بے روزگار رہا اور اپنے بچپن سے لطف اندوز ہوا یہ وقت اس کے گھر والوں کے لیے بہت مشکل تھا لیکن فراز کے مطابق یہ وقت اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔

خاندان کی طرف سے مسلسل طنز اور دباؤ نےُاس کو کام پر مجبور کیا‘ اس دفعہ کام کی نوعیت مختلف تھی اس نے رکشہ اسٹینڈ پررکشہ ڈرائیور کے معاون کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ اس دفعہ کام کی نوعیت کے ساتھ ساتھ اس کا معاوضہ بھی مختلف تھا ۔ کوئی ماہانہ تنخواہ نہیں بلکہ اس کی کارکردگی کے حساب سے اس کو کمیشن دیا جاتا تھا۔ اس کا کام گزرتے لوگوں کو رکشہ میں بیٹھنے کے لیے قائل کرنا تھا۔ فی گاہک کا معاوضہ 20 روپے تھا۔ فراز کو یہ ملازمت سب سے اچھی لگی گو کہ اس میں وہ اپنا مالک خود تھا۔ فراز کام کے گھنٹوں سے بھی مطمئن تھا کیونکہ اس کو اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع بھی ملتا تھا۔

فراز سے میرا آخری سوال کہ کیا اگر اس کو اسکول داخل کرا دیا جائے اور اس کے تمام اخراجات بھی اٹھا لیے جائیں تو کیا وہ دوبارہ سکول جائے گا؟ میرے پچھلے تجربات کی طرح اس نے بھی پڑ ھنے سے انکار کردیا کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بچے اپنے پہلے حالات سے خوفزدہ ہو کر سکول نہیں جاتے۔ ان کو یہ بھی ڈر ہے کہ سکول دوبارہ جانے پرباقی بچے ان کی عمروں کامذاق اڑائیں گے۔ ان کے دماغ میں یہی ہوتا ہےکہ سکول جانے پر گھر کا خرچ کیسے چلے گا اور اساتذہ کی مار کیسےبرداشت کریں گے۔ اس وجہ سے فراز اور دیگر تمام بچوں نے سکول جانے سے انکار کردیا۔

یہ بے بسی قابلِ فہم ہے۔ ماہرِ تعلیم ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کریں اور بچوں سے پہلے اپنے بالغوں کو تعلیم دیں۔امید کے کہ ہم ایک دن اپنے نظام کو اس ناسور سے پاک کردیں گے جہاں کوئی بچہ سکول جانے سے انکار نہیں کرے گا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں