The news is by your side.

آلودگی کے بھیانک اثرات کا آغاز

کرہ ٔ ارض پر صدیو ں سے رہنے والاانسان اب اپنے لیے خود ہی تباہی کا سامان پیدا کر رہا ہے‘ اپنے مفاد اور لالچ کی خاطر اپنے وسائل کا بے احتیاطی سے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ان کو کم کر رہا ہے بلکہ ان کے زیادہ استعمال سے اپنے ماحول کو متاثر کررہا ہے۔ اٹھارویں صدی میں آنے والے صنعتی انقلاب نے انسان کوجدید دنیا میں لا کھڑا کیا ہے انسان تیزی سے ترقی کرتے کرتے یہ بھول گیا کہ وہ وسائل کا جلدی جلدی خاتمہ کر رہا ہے۔

ترقی کی دوڑ میں انسان یہ بھی بھول گیا کہ آنے والے دنوں میں اس کے ساتھ کیا ہوگا۔انسان ترقی کر کے اپنی زندگی بہتر کرتا رہا لیکن اس کو یہ انداز ہ تب نہیں تھا کہ یہ ترقی اس کو اس دنیا میں رہنے نہیں دے گی۔دولت مندوں نے دھڑا دھڑ فیکٹریاں اور کارخانے قائم کرنے شروع کردیے ،ان کو چلانے کے لئے قدرتی وسائل کا سرکھانا شروع کر دیا، بڑے پیمانے پر جنگلات کا خاتمہ کر کے ماحول کو مزید خراب کر دیا، رہی سہی کثر بڑھتی ہوئی آبادی نے پوری کر دی اتنی بڑی آبادی کےلئے نئے شہر اور کالونیاں جنگلات اور فصلات کو کاٹ کر بنائی گئیں۔

اب ہر طرف آبادی ہی آبادی ہے ، شہر ختم ہوتے ہیں تو فیکٹریاں اور کارخانے شروع ہو جاتے ہیں۔ فصلیں اور جنگلات دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔جس کی وجہ سے انسان کو آج کے دور میں آلودگی کے ساتھ غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

موجودہ صدی سے پہلے سائنس دانوں نے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کے الرٹ دینے شروع کر دیے تھے لیکن ان کو کسی نے سنجیدگی طور پر نہیں لیا۔ ماہرین کی ایک جائزہ رپورٹ جس میں دنیا بھر کے 13سو غیر جانب دار ماہرین اور سائنس دانوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ گزشتہ اڑھائی سو برسوں میں ہونے والی انسانی سرگرمیوں نے ہماری زمین کیے درجہ حرارت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ جس کے منفی اثرات شروع ہو چکے ہیں، موجودہ صورت حال تو مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ کینیڈا کے شہر وینکوور کی یونیورسٹی آف برٹش کولمیيا کے اسکول آف پاپولیشن اینڈ پبلک ہیلتھ کے ايک پروفيسر مائیکل براؤئر نے کہا، ’’فضائی آلودگی اس وقت عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے چوتھا سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔ پاکستان میں خاص کر سردیوں کے مہینوں (نومبر اور دسمبر) میں دھند شروع ہو جاتی تھی جو عموماً فروری کے شروع دنوں میں ختم ہوجاتی تھی یا پھر دسمبر اور جنوری میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ دھند ختم ہو جاتی تھی ، لیکن اب پاکستان میں دو تین سالوں سے دھند کے بعد سموگ بھی شروع ہوچکی ہے، جو انسانوں کے ساتھ دوسری حیاتیاتی مخلوق کے لئے بھی نقصان دے ہے۔ سموگ یا دھواں جو ہماری فیکٹریوں ،بھٹہ خشت کی چمنیوں ،گاڑیوں ، گھریلو آگ والے چولہے جن میں لکڑی اور کوئلہ استعمال ہوتا ہو ، ہمارے پاور ہاوس جو کوئلے پر چلتے ہیں اور جو بڑی مقدار میں دھواں چھوڑ کرماحول کو متاثر کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں سردی کا آغاز نومبر کے مہینے سے ہوتا ہے سردی کی وجہ سے فضاء میں ٹھنڈا بڑھ جاتی ہے اور ساتھ ہی نمی کی مقدار اضافہ ہوجاتا ہے، اوپر نمی کی وجہ سے دھواں فضاء میں نہیں جا پاتا ۔ آپ نے کبھی غور کیا ہو سردیوں میں جہازوں کے گزرنے سے آسمان پر سفید لکیریں بن جاتی ہیں اور ایسی ہی صبح و شام کو لکڑی کے چولہے کا دھواں بادلوں کی طرح محسوس ہوتا ہے جو ایک خاص سطح پر جمع رہتا ہے ایسے ہی موسم سرما میں خشک سردی کی وجہ سے فوگ پیدا ہوتی ہے تو یہ سموگ اس میں شامل ہو کر مزید نقصان دے ہو جاتی ہے۔ اب حالیہ سموگ میں فوگ بھی شامل ہو رہی ہے جس کے پیش نظر سٹرکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے اور ساتھ حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔

سموگ و فوگ انسانی صحت اثر انداز ہورہی ہے، اس کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف ، جلدی امراض، پیٹ کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی آکسیجن کی کمی کے باعث انسانی دماغ برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، عموماً اکسیجن کی کمی سے دماغ سکڑ جاتا ہے۔ موجود آلودگی کی وجہ دماغی امراض میں بھی خطرناک اضافہ ہو گا ۔ ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت کے لئے اس قدر خطرناک ہے کہ اس کی وجہ سے جسم کا کوئی ایسا عضو نہیں جو متاثر نہ ہو رہا ہو، حتی کہ انسانی گردے، پھیپھڑے اور بینائی تک متاثر ہو رہی ہے۔ انسانوں کے علاوہ جانور بھی بیمار ہورہے ہیں،

فصلیں اور پودے بھی اس سموگ اور فوگ سے متاثر ہورہے ہیں‘ دھوپ نہ نکلنے کی وجہ سے ان کی بڑھوتری نہیں ہورہی جس سے پیداوار کی کمی اور مختلف زرعی اشیاء کا بحران پیدا ہوگا۔

ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت مثاثر ہورہی ہے، اب تک اربوں ڈالر کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ 24بین الاقوامی اداروں کے ماہرین کی طرف سے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران معیشت کو مجموعی طور پر 129ارب ڈالر کے نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق2010سے 2016کے درمیان شدید موسمیاتی حالات سے ہونے والے نقصانات میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے بارے مختلف ماہرین انسان کو اپنے ماحول کو بہتر بنانے پر زور دے رہے ہیں‘ آنے والے سالوں میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے جن میں گرمی سردی ، طوفان ، حد سے زیادہ بارشیں ، سموگ و فوگ ،اور سب سے بڑھ کر غذائی قلت سے انسانی زندگی خطرے سے دوچار ہوگی۔ ’’دی لینسیٹ ‘‘نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیزی سے ہوتی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی شدید غذائی کمی کے سبب 2050ء میں 5 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

اس کے علاوہ مزید محققین نے انکشاف کیا ہے کہ فضائی آلودگی کے سبب سالانہ بنیادوں پر کئی لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں اور ان میں سے نصف سے زیادہ ہلاکتیں تیزی سے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ممالک چین اور بھارت ميں ہوتی ہیں۔ واشنگٹن ميں ’امریکن ایسوسی ایشن فار دا ایڈوانسمنٹ آف سائنس‘ کی ایک کانفرنس میں سائنس دانوں نے چند سال قبل خبردار کیا تھا کہ اگر آلودگی ميں کمی لانے کے لیے زیادہ سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والوں سالوں ميں قبل از وقت اموات کی شرح میں اضافہ جاری ہے گا۔ اسی طرح دنیا کے مختلف حصوں میں 2000 ء گرمی کی شدید لہر کے دوران کھلے آسمان تلے کام کرنے والے محنت کشوں کی پیداواریت میں 5.3 فیصد کمی آئی جب کہ اسی موسمی صورتحال کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران دل کے دورے اور ڈی ہائیڈریشن کے نتیجہ میں ہونے والی اموات 125ملین تک پہنچ گئیں۔

ایک چینی طالبہ کائیو جو ماحولیات پر پی ایچ ڈی کررہی ہیں ‘ انہوں نے پیشن گوئی کی ہے کہ اگر فضائی آلودگی میں کمی متعارف کرانے کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو سن 2030ميں تک تقریباً دس لاکھ تا تیرہ لاکھ اموات کا سبب ماحولیاتی آلودگی بن سکتی ہے۔

اگر سابقہ اعداوشمار کا جائزہ لیا جائے تو رواں صدی سے قبل یورپ میں گرمی کی لہر کی وجہ سے 35 ہزار ہلاکتیں ایک ہی سال میں ہوئی تھیں۔ اسی طرح سال 2015 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گرمی کی لہر اور ہیٹ سٹروک کی وجہ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں تھیں۔ تقریباً اس کے لگ بھگ 2016 میں بھی ہوئی تھیں۔ اسی طرح سال 2010 میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں 18 سوافراد ہلاک ہوئے، 2015ء میں آنے والے سیلاب میں 169لوگوں ہلاک ہوئے۔

عالمی سطح پر ایک سرگرم تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے اپنے گلوبل کلائیمٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 10 سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جبکہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 27لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔

پاکستان اور ڈبلیو ڈبلیو ایف برطانیہ کی ایک مشترکہ رپورٹ ’’نیچر پاکستان پروجیکٹ‘‘کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح میں سالانہ 6 ملی میٹراضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں ساحلی علاقوں کی زمین آہستہ آہستہ سمندر برد ہو رہی ہے۔ پاکستان کے علاوہ مالدیپ کے بارے میں بھی ماہرین شدید خطرات کی پیشن گوئی کرتے ہیں‘ مالدیپ سمندری جزیروں پر مشتمل ہے جو سطح سمندر سے سات سے چار انچ تک اونچا ہے ماہرین کا کہنا ہے گلیشیر بگھلنے کی وجہ سے سطح سمندر میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہےاور مالدیب آئندہ صدی تک سمندر میں غرق ہو جائے گا۔

ایسے ہی قطب جنوبی کاوہ حصہ جو سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا‘ گرمی کی شدت سے قطب جنوبی کے گلیشئر کا حجم سکڑ کر کم ہو رہا ہے۔ماہرین کہتے ہیں پاکستان کے پہاڑی سلسلے قراقرم کا مستقبل بھی انتہائی پریشان کن ہے،قراقرم کے سلسلے کا ایک بڑا گلیشئر’پاسو‘جو 2010ء سے سالانہ 25 میٹر کم ہو رہا ہے، اورمجموعی طور پر 58 فیصد ختم ہو چکا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں جنگلات انتہائی ضروری ہیں اور ہم ہیں کہ دن بدن جنگلات کا صفایا کر رہےہیں۔ اس میں ٹمبر مافیاء کا بہت بڑا کردار ہے ۔پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ایکڑ رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزارایکڑ تک رہ گیا۔ مجموعی طورپر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے تاہم جنگلات پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے۔ ملک کے شمالی علاقہ جات میں درخت کاٹ کر جنگلات کا صفایا کیا جارہا ہے ساتھ ہی درالحکومت اسلام آباد کے گردونواع میں بے تحاشہ درخت کاٹے جارہے ہیں، جس کے متعلق کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف ایک شہر کا نہیں بلکہ پورے پاکستان میں اس سے زیادہ جنگل کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ جس پر اعلیٰ عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔

ملک میں سموگ اور فوگ کے شروع ہوتے ہی اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہیم چلائی جاتی ہے، جبکہ اسی سال بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ بھی بند کیے جا رہے ہیں۔دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کیا جارہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے ہم وقت سے پہلے تیاری نہیں کرتے، ہمیں ہوش تب آتا ہے جب سر سے پانی گزار چکا ہوتا ہے۔

ہمیں ماحول دوست توانائی کے ذرائع کے بارے میں پہلے ہی سے سوچنا چاہیے تھا۔ سموگ کے شروع ہوتے ہی دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے خلاف کاروائی اب کی بجائے سارا سال جاری رکھنی چاہیے تھی۔ نومبر اور دسمبر میں بھٹہ خشت میں آگ جلانے پر پابندی لگا دینی چاہیے جس کے لئے ان کے مالکان کو

پہلے سے ہی آگاہ کر دیا جائے۔ کوڑے کو جلانے کی بجائے اسے ری سائیکل کیا جائے۔ انڈسٹریز کو شہر آبادی سے دور بنایا جائے۔زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ اب بھی اتنے حالات بھیانک نہیں ہوئے بہتر حکمت عملی اور موثر اقدامات سے ہم ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کر کے اس کرۂ اراض کو آنے والےانسانوں کے لئے محفوظ بنا سکتے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں