پنجاب کے مرکزی اضلاع سیالکوٹ گجرات گوجرانولہ جہلم کے نوجوانوں میں آج کل پنجابی کا ایک جملہ ’بیچو مکان تے چلو یونان ‘(مکان فروخت کرو اور یونان چلو) ایک رائج الوقت محاورے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے‘ اس جملے کے اس قدر زبان زد عام ہونے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یورپ جانے کی خواہش ایک وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ نوجوان اپنی ہر چیز داؤپر لگا کر یورپ چلے جانا چاہتے ہیں۔
اس معاملے کی وجوہات میں اگر جائیں تو اولاً بے روزگاری اور دوئم معاشرتی عدم توازن ، راتوں رات امیر بننے کا خواب نوجونوں کو اس مہم جوئی پر اکساتا ہے اور وہ کسی ایسے ایجنٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ‘ جو ان کو سمندر پار کی دنیا میں پہنچا دےیہ جانے بغیر کہ کیا وہ وہاں پہنچ بھی سکیں گے یا راستے میں ہی اپنی زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔ ایجنٹ کے لئے بھی انہیں کوئی دفتر تلاش کرنا نہیں پڑتا بلکہ گلی کی نکڑ پر واقع چائے کے کھوکھے پر اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا دوست پہلی دفعہ یہ ملاقات کروا دیتا ہے اوراس کے بعد ایک ٹیلفون نمبر ان کے درمیان تمام رابطوں کا ذریعہ بنتا ہے۔
نہ کسی پاسپورٹ کی ضرورت‘ نہ سفری دستاویزات کی ۔۔۔ بس ایک بیگ اور چند سو ڈالر لے کر یہ نوجوان گھر سے نکلتے ہیں ، اس کے بعد ان کو ہر ہدایت ایجنٹ کے موبائل سے ملتی ہے کہ اسے کہاں پہنچنا ہے؟۔بلوچستان میں داخل ہوتے ہی انسانوں کی اس کھیپ کو بھیڑ بکریوں کی طرح پچھلا ایجنٹ انہیں اگلے ایجنٹ کے حوالے کردیتا ہے۔ انسانی سمگلروں کا یہ ایک پورا مافیا ہے جس کا نیٹ ورک اس گلی کے نکر پر ملے ایجنٹ سے لے کرایران‘ ترکی اور یونان کی سرحدوں تک پھیلا ہوتا ہے۔وطن چھوڑنے والے دراصل ایک طرح ان کے یرغمالی ہوتے ہیں جن کے ایجنٹ بدلتے رہتے ہیں۔ ہر ایجینٹ کی اگلے ایجنٹ کے ساتھ ایک ڈیل ہوتی ہےجس کے تحت یہ ادلا بدلی ہوتی ہے۔
خشکی کے راستے یورپ جانے والے یہ نوجوان پاکستان سے ایران ‘ اور پھر ایران سے ترکی اور پھر وہاں سے ترکی کا بارڈر کراس کرکے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔بظاہر ایک جملے میں لکھا جانے والا سفر بہت آسان لگتا ہےلیکن ان تمام داستانوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے‘ جس میں کسی کے فرار ہونے کے واقعے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ ان ناولوں ‘ کہانیوں اور آپ بیتیوں میں ان کے کرداروں نے کیسی کیسی مصیبتیں تکالیف برداشت کیں‘ کن مشکلات اور دکھ درد کا ان کو سامنا کرنا پڑا ، لیکن آپ یقین کریں کہ اس کے مقابلے میں اگر آپ ان تارکینِ وطن کی صعوبتیں اور تکالیف سنیں تو آپ کو لگے گا کہ وہ تمام کہانیاں ان واقعات کے سامنے بالکل ہیچ ہیں۔
یہ تارکین وطن اپنی جان کی بازی لگا کر یونان پہنچتے ہیں‘ حالات کس قدر خوفناک ہوں گے خود ان کو بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ وادی مرگ کا یہ سفر بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سےنکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے جہاں سے ان کی واپسی کا راستہ تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی واپس آنا چاہئے تو یہ ایجنٹ اس کو جان سے مار دیتے ہیں‘ ان ایجنٹوں کو واپس جانے والوں سے دو خطرے ہوتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ واپس جانے والاپنجاب والے ایجنٹ کو پکڑوا نہ دے ‘ دوسرا جو پوری رقم انہوں نے ایڈوانس میں لی ہوتی ہے ‘ وہ واپس نہ کرنی پڑ جائے چناچہ وہ ایسے افراد کو باقی لوگوں کے سامنے کسی پہاڑ سےدھکا دے دیتے ہیں یا گولی مار دیتے ہیں کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں اور واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں۔
ان ایجنٹوں کےعلاوہ علیحدگی پسند تنظیموں اور فرقہ پرست دہشت گرد وں کی جانب سے دوسرے فرقے کے لوگوں کو ڈھونڈ کر مار دینے کا خطرہ علیحدہ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے ‘ علاوہ ازیں پنجاب سے جانے والوں کو قطعی وہاں کے جغرافیائی حالات کا علم نہیں ہوتا لہذا میدانوں کے رہنے والے یہ نوجوان جب خطرناک پہاڑی سلسلوں‘ صحراؤں ‘ ندی نالوں اور جنگلوں میں میلوں پیدل چلتے ہیں تو ان میں کئی کسی حادثہ کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور جو زخمی ہوجائے ‘ اسے بھی یہ ایجنٹ خود مار دیتے ہیں کیونکہ وہ اس سفر کے دشوار گزار راستوں کو عبور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ پیچھے ان کو چھوڑا نہیں جاسکتا اور یہ ایجنٹ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کام ایک انسانی کھیپ کو ایران کی سرحد پر پہنچانا اور پھر دوسری آنے والی کھیپ کے درمیان وقفہ قائم رکھنا ہے۔
اس سفر میں یہ تارکین وطن ہر جانب دم موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں ‘ ابھی حال میں ہی تربت سے ملنے والی پندرہ لاشوں کی خبر تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ کیسے ان کو ایک علیحدگی پسند تنظیم کے لوگوں نےگولیوں سے بھون ڈالا ان میں سے بچ جانے والے ایک سترہ سالہ لڑکے نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایجنٹوں سے یونان جانے کے ایک لاکھ پینتس ہزار طے کئے تھے گویا وہ اپنی جان کا سودا ایک لاکھ پینتس ہزار میں کررہاتھا۔
یہ ایجنٹ جانے والے نوجوانوں کے ساتھ سودا طے کرتے ہوئے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کتنا افورڈ کرسکتا ہے اور اسی حساب سےپیسے طے کرتے ہیں‘ عام طور پر سوالاکھ سے لے کر ساڑے تین لاکھ تک میں سودا طے پاتا ہے‘ کچھ پیسے پہلے لے لیتے ہیں۔۔ بقایا یونان پہنچ پر کمائی کرکے دینے کے وعدہ پر لے جاتے ہیں۔لیکن کمائی کرکے پیسے واپس کرنے والی بات بالکل جھوٹ ہوتی ہے اس سے پہلے ہی یہ ایجنٹ مختلف بہانوں سے اصل کا تین گنا وصول کر لیتے ہیں ۔
یہاں ان نوجوانوں کے گھروالوں کا رد عمل بھی زیر بحث نہ لایا جائے تو موضوع مکمل نہ ہوگا‘ ان نوجوانوں کے پچانوے فیصد خاندانوں کے افراد کی ناصرف اس میں رضامندی شامل ہوتی ہےبلکہ خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق جتنی بھی مالی مدد ہوسکےوہ کرتا ہے ۔ پونڈ اور ڈالر کا خمار کچھ ایسا چڑھتا ہےکہ اگر کسی کو ان خطرات کا علم بھی ہو تو وہ چُپ سادھے رہتا ہے کہ کہیں لڑکا ڈر کر اپنا ارادہ ملتوی ہی نہ کردے۔
موت اور زندگی کےاس کھیل میں ان تارکینِ وطن کے سامنے تین ملکوں کی بارڈر سیکورٹی فورسز ہوتی ہیں جن کو چکما دے کر انہیں ایران‘ ترکی اور پھر یونان مین داخل ہونا ہوتا ہے۔ یہ فورسز کوئی عام لوگ نہیں بلکہ تربیت یافتہ فوجی ہوتے ہیں جن کا روزانہ ان جیسےتارکین وطن سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ‘ ان نوجوانوں میں سے بہت سارے بارڈر کو کراس کرتے ہوئے ان فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ایران اور ترکی میں غیر قانونی طور سفر کرتے ہوئےان افراد کا واسطہ ایسے قبائل سے بھی پڑتا ہےجو کہ ذرا سی بات پر ان کو مار ڈالتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر ترکی‘ ایران اور عراق میںموجو کرد قبائل ہیں جو کہ خود علیحدگی چاہتے ہیں۔ یہ کسی اجنبی کو اپنے علاقے میں برداشت نہیں کرتے۔ اور ان تارکین وطن کو ان کے علاقوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے‘ ایران اور ترکی کے اندر یہ لوگ کس طرح اپنا سفر جاری رکھتے ہیں کس طرح انہیں کسی جانوروں کی مانند گاڑیوں میں ٹھونس کر کنٹینروں میں بند کرکےلے جایا جاتا ہےاور کس طرح تہہ خانوں میں کئی کئی دن بند رکھا جاتا ہے‘ ان میں سے جو پکڑے جاتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا یہ ایک علیحدہ داستان ہےجس کی تفصیل میں جائیں تو ایک کتاب بھی لکھنا کم پڑسکتا ہے۔
مختصراً یہ کہ یہ لوگ محض چند مقامات پر خطروں کے مسافر نہیں ہوتے بلکہ وادیٔ موت کےچوبیس گھنٹوں کے راہی ہوتے ہیں۔ بلوچستان ‘ ایران اور ترکی کے سفر کے دوران جو لوگ مرجاتے ہیں ان کو کفن تو کیا قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ انسانی جانوں کی جو بے توقیری ان ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن ترکی اور یونان کی سرحد پر ایسے قبرستان ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں ان تارکین وطن کی قبریں ہیں۔ لیکن ان بے نام قبروں پر کوئی کتبہ نہیں۔ حسب نسب اوروالدین کا پتہ نہیں۔وہ مسلم ‘ عیسائی‘ ہندو ہیں یا سکھ‘ کوئی تمیز نہیں ۔بس جس کی لاش ملی اسے دفن کردیا گیا نہ ان کی نماز جنازہ کسی نے پڑھائی نہ کسی چرچ میں آخری رسوم ہوئیں اور نہ مرنے والے کی آتما کی مکتی کے لئے کسی پنڈت نےگیتا کا پاٹھ کیا۔خدا ہی جانتا ہے کہ ماں باپ اور بھائی بہن کیسے گمنام لاوارث مرنے کے لئے اپنے جگر گوشوں کو اس سفر پر بھیج دیتے ہیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں