ہم زندہ قوم ہیں ہم پائندہ قوم ہیں ضیاالحق کے دور میں یہ ترانہ سنتے سنتے جوان ہوئے ۔ لیکن کیوں اس دور میں ہم نے جتنے بھی ترانے بنائے اس کا الٹ اثر ہوتا گیا اور ہم مرُدوں سے بھی بد تر ہوتے گئے ہمارا ضمیر دور کسی قبرستان میں جا سویا اور ہم ذاتی مفادات، ذات، برادری قبیلوں اور دھڑوں کی سیاست میں ڈوبتے چلے گئے اور بھول ہی گئے کہ ہمیں معاشرہ کو بھی سدھارنا ہے،اس کی راہیں متعین کرنی ہے،اس کو ایجوکیٹ کرناہے ہمیں آنے والی نسلوں کا مسقبل سنوارنا لیکن ہم تومرد مومن مرد حق ضیاالحق ضیاالحق زندہ ہے بھٹو زندہ ہے نواز ساڈا شیر اے باقی ہیر پھیر ہے کرتے کرتے اس نہج پر پہنچے کہ نہ تو ہمارا ضمیر اے پی ایس کے شہدا کے خون سے جاگا اور نہ قصور کی سات سالہ زینب کے بے رحمانہ قتل سے‘ آپ یقیناً کہیں گہ کہ اتنے تو جلوس نکلے دو لوگ مارے گے سوشل الیکٹرونک میڈیا پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر اس وقت جب پہلی بچی کے ساتھ ایسا ہوا تھا پورا قصور شہر بلکہ پورا ملک نہیں پورا معاشرہ اٹھ کھڑا ہوتا تو پھر جو گیارہ جانیں بعد میں گئیں وہ بچ جاتیں اور اب بھی مجھے نہیں معلوم کہ یہ معاملہ کتنے دن چلے گا کتنے دن ہم اس کو یاد رکھے گے پھر بھول جائیں گے ۔ پھر خاموشی چھاجائے گی پھر پولیس کے معطل افسران بحال ہو جائیں گے۔ اور ہم آنکھیں بند کرکے ہر برائی کو دیکھتے ہوئے بھی نظریں چرا کر آگے نکل جائیں گے۔ اور پھر کسی زینب کی لاش کا انتظار کسی کچرے کے ڈھیر پر ملنے کا کریں گے ۔ ہم نے نہ مختاراں مائی کے واقعے سے کچھ سیکھا نہ کسی کو زندہ جلا کر ہمارا ضمیر جاگا ۔ آپ میں سے اکثر شاید یہ بھی سوال کریں کہ ضمیر آخر ہے کس بلا کا نام ، میرے پاس بھی اس کا کوئی جواب نہیں کیونکہ ہمارا ضمیر بھی تقسیم ہوگیا ہے جس طرح ہم ذات، برادری، قیبلوں، سیاسی اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اتنا ہی ہمارا ضمیر بھی منقسم ہے۔
زینب کا قتل ایک بچی کا قتل نہیں یہ ہماری نسلوں کا قتل ہے یہ کسی جنسی درندے کا کام نہیں یہ اس بے حس معاشرے اور اس کے ارباب اختیار کے فرائض سے آنکھیں چرانے کا نیتجہ ہے۔ اس کے قتل کے پیچھے رائےونڈ سے لیکر سرے محل اور مذہبی آمریت سے لے کر لبرل آمریت تک کا ہاتھ ہے۔ اس ملک کا کوئی شخص صدر سے لیکر عام عوام تک اس سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ میں شاید بنی گالہ کو چھوڑ گیا لیکن یہ بار ثبوت ان پر بھی ہے انہیں بھی عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا انہیں بھی معاشرے کے ضمیر پر دستک دینی پڑے گی ورنہ ان کا نام بھی بے ضمیروں میں لانا پڑے گا ۔ نظام ہی نہیں معاشرے کی راہ بھی متعین کرنی پڑے گی ۔ مذہبی جماعتوں اور گروپوں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا پڑے گا۔ فروعی سیاسی اختلافات چھوڑ کر معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا
زینب کی لاش ایک کچرے کے ڈھیر سے نہیں ملی۔ بلکہ وہ اس مردہ بے ضمیر معاشرے کا ڈھیر تھا جس پے زندہ زینب چیخ چیخ کر اس معاشرے کو اٹھانے کی کوشش کررہی تھی کہ اٹھ جاؤ خدا کے لیے اٹھ جاؤ اس سے پہلے کہ تمھاری بیٹیاں یہاں آکر تمھیں جگائیں وہ اس غلیظ جگہ کیسے آئیں گئیں یہاں کی بو کیسے برداشت کرسکیں گی۔ تم نے تو انھیں بڑے نازو سے پالا ہے وہ یہاں کیسے ٹھہریں گئیں ۔ میں تمھیں جگانے آگئی ہوں کہ تمھاری بیٹیوں کو یہاں نہ آنا پڑ جائے اس لئے اٹھ جاوُ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں