The news is by your side.

شکر ہے زینب یہ سب دیکھنے سے پہلے مرگئی

ہم سنتے آئے ہیں کہ چور چوری سے جاتا ہے مگر ہیرا پھیری سے نہیں اور ہماری بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ چند روپوں کی خاطر تازہ قبر سے مردے کا کفن بھی کھینچ کر بیچ دیتے ہیں۔ معلوم نہیں آپ میری بات سے اتفاق کریں گے یا نہیں مگر کل کچھ اسی طرح تو ہواجب خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے قصور کی ننھی پری زینب کے قاتل درندے کی گرفتاری کو ’’کیش‘‘ کروانا چاہا اور اس کا’’ کریڈٹ‘‘ لینے کے لیے اپنی ازلی بے حسی اور سفاکی کی روایت پر عمل کرتے دکھائی دیئے۔

انہیں شوباز اور نمائش کا عادی کہا جاتا ہے تو کچھ غلط تو نہیں ہے۔ کوئی بھی موقع ہو شہباز شریف خود کو نمایاں کرنے اور اپنی تعریف کروانے میں پیچھے نہیں رہتے۔ معصوم زینب کا قاتل اور جنسی بھیڑیا عمران 20 روز بعد بالاّخر گرفتار ہوگیا۔ تخت پِنجاب کے والی اور مستقبل میں وزیراعظم بننے کے لئے لابنگ کروانے والے شہباز شریف نے جھٹ پریس کانفرنس کا اہتمام کر ڈالا۔ اس موقع پر جہاں ان کے درباری ہاتھ باندھے ان کا ظلم اور سفاکی کے خلاف خطاب سننے کے لئے موجود تھے وہاں وہ شخص بھی بلوایا گیا تھا جس کی زندگی کا ہر پل اذیت اور تکلیف سے گزر رہا ہے۔ جس کی معصوم اور پھول سی بیٹی کو ایک ظالم نے روند ڈالا تھا۔

پریس کانفرنس شروع ہوئی تو وزیراعلیٰ پنجاب اپنے روایتی انداز میں بولتے چلے گئے۔ ظلم اور ظالم سے نفرت اور اپنے عوام دوست ہونے کا خوب پرچار کیااورپھر امین انصاری کوکمال دریا دلی سے اظہار خیال کا’’موقع ‘‘دیا۔ ابھی ان کی بات ابتدائی کلمات سے شکریئے کی طرف ہی بڑھے تھی کہ خود خادم اعلیٰ نے ان کا مائیک بند کر دیا اور فورا اپنی نشست چھوڑ دی۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ خادم اعلیٰ کے چہرے سے کیسی ’’دردمندی‘‘ جھلک رہی ہے۔ ان کے پاس غریب اور مظلوم عوام کے لئے کتنا وقت ہے اس کا اندازہ بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔

شاید شہباز شریف کا یہ عمل اس ڈرکا نتیجہ تھا کہ امین انصاری کے جذبات کا اظہار کہیں ان کے تخت اور تاج کے لئے مسئلہ نہ کھڑا کر دیں اور کچھ نہیں تو کم از کم امین انصاری کی گفتگو اور صحافیوں کے سوالات میں ان کا وقت ضرور بربادہوگا جبکہ انہیں ابھی آشیانہ کیس اور نیب کے دیگر جھگڑوں سے بھی تو نمٹنا ہے۔ڈر یہ تھاکہ امین انصاری کچھ ایسا نہ کہہ دے جس سے زینب ہی نہیں قصور کے دیگر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات کا طویل باب نہ کھل جائے اور خادم اعلیٰ کے دور میں امن اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے دعوؤں کے پرخچے اڑ جائیں۔لیکن یہ تو شاید کچھ بھی نہیں۔ شاہ اور درباریوں نے سفاکی اور سنگدلی کی حدیں پار کر لیں۔

امین انصاری جس کی لاڈلی بیٹی زینب جس نے ابھی زندگی کے کچھ سال ہی اس دنیا میں بسر کئے تھے اوراس بچی کی کائنات اس کی گڑیا اور دوسرے کچھ کھلونے، جس کا اثاثہ اسکول کا بیگ اور جس کی دولت ماں کی گودی اور باپ کا کندھا تھا، ہاں اسی بچی کے قاتل کی گرفتاری کا اعلان جب شاہِ پنجاب نے کیا تو درباریوں نے تالیاں بجائیں اور خوشامد کے کٹورے بھرتے چلے گئے ۔ ہر طرف واہ واہ ہورہی تھی اور خادمِ اعلیٰ کی تعریف کے پُل باندھے جارہے تھے۔ کیسا منظر تھا وہ؟ کیسی محفل تھی وہ جس میں معصوم بچے بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور قتل پر ایک دکھی باپ کی موجودگی میں بھی حکومت پر کامیابی کا کریڈٹ لے جانے کا جنون سوار تھا۔

شاید خادمِ اعلیٰ کے نزدیک یہی ان کی اصل کامیابی تھی۔ شایددرباریوں کی نظر میں بھی قصور کے تمام بچوں کا قاتل خادمِ اعلیٰ کی وجہ ہی سے اپنے انجام کوپہنچاتھا۔ ادھر میں امین انصاری کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس پر کرب کے آثار تھے اور مجھے لگا وہ ایک ’’سرکاری شو‘‘ کے ایسے ’’ مہمان خاص ‘‘ ہیں جن کے جذبات اور احساسات اس بٹن کے محتاج رکھے گئے جسے کھولنے بند کرنے کا اختیار میزبان کے پاس ہوتا ہے۔مجھے اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہیں اور یہی وجہ ہے یہ بے حسی اور سفاکی اس خاندان کی رسوائی اور مشکلات کی وجہ بن رہی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

+ posts

سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں