جنوری کا آخری دن جاتے ہوئے اپنی یادیں چھوڑ گیا ‘یہ دن پوری دنیا کے لیے یاد گارتو رہا‘ لیکن خاص پاکستانیوں کے لیے کچھ زیادہ ہی یادگار رہے گا ‘ ایک تو چاند گرہن کے ساتھ سپر مون اور بلڈ مون کا نظارہ پوری دنیا سمیت پاکستانیوں نے بھی کیا،اس چاند گرہن کا نظارہ اور ساتھ ہی سپر مون اور بلڈ مون کو تقریباً ڈیڑھ صدی بعد دیکھا گیا۔اس کے علاوہ اس دن پاکستان افغانستان اور بھارت میں دن کی اوقات میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے‘ جس کی شدت چھ اعشاریہ ایک تھی زلزلے نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی افراتفری پھیلا دی اللہ کی مہر بانی سے کو ئی زیادہ نقصان نہ ہو ا ‘ لیکن اسی نوعیت کا ایک جھٹکا حکومت تیل کی قیمتوں میں آضافہ کر کے عوام کو بھی دیا ۔
زلزلے کے بعد آفٹر شاٹس کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو جلد تھم جاتا ہے ‘لیکن تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے آفٹرشاٹس عوام کو متواتر محسوس ہوتے رہیں گے اور پندرہ دن بعد پھر عوام کو دوبارہ یہ جھٹکا دیا جائے گا تاکہ عوام کی جھٹکے کھانے عادت بنی رہے اور بچاری عوام کو مہنگائی کے ایسے جھٹکے لگانے کا یہ سلسلہ ایسے چلتا رہے گا۔ ہر پندرہ روز بعد تیل کی قیمت بڑھانے سے اس کا براہ راست اثر تمام اشیاءکی قیمتوں پر پڑتا ہے ‘بڑھتی مہنگائی سے روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں دن بدن ہوتے اضافے ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔
عالمی منڈی کے مقابلے میں پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہیں ‘حکومت 17 فیصد کے بجائے ان مصنوعات پر 33 فیصد سیلز ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عالمی مارکیٹ میں قیمتیں اتنی نہیں بڑھتی ہیں جتنا پاکستان میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ اس مہنگائی کے طو فان سے عوام پہلے تنگ تھی‘ دوسرا ہر پندرہ دن کے بعد اضافے کی خبریں پہلے آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔جس سے پٹرول پمپ مالکان تیل کا ذخیرہ کرنا شروع کردیتے ہیں ‘ جونہی حکومت کی طرف سے قیمتیں بڑھانے اعلان ہوتا ہے تو سرمایہ دار کا سرمایہ بڑھ کر ڈبل ہوجاتا ہے جس سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم مزید زیادہ ہو جاتی ہے پھر جو جتنا زیادہ سرمایہ دار ہوتا جاتا ہے وہ اپنے فائدے کی خاطر عام آدمی کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے معاشرے میں ناہمواری ، عدم برداشت ، تشدد ، اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔
حال ہی میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر میں رجسٹرڈ دواو ٔں کی قیمتوں میں سالانہ اضافے کا باضابطہ اعلان کیا، جس کی منظوری کابینہ نے بھی دے دی ہے۔ ڈائریکٹر ڈرگ پرائس کے مطابق وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد شیڈول دواو ٔں کی قیمتوں میں 2.08فیصد جبکہ نان شیڈول دواو ٔں کی قیمتوں 2.91فیصد اور 5روپے سے کم ادویات کی قیمت میں 4.16 فیصد آضافہ کیا گیا ہے۔ پریشان کن امر یہ بھی ہے کہ ایسی ادویات جو سالانہ اضافے کے بعد کم قیمت دواو ٔں کی فہرست شامل تھیں وہ اس فہرست سے نکل جائیں گی۔دنیا کے اکثر ممالک اپنی عوام کو طبی سہولیات و ادویات کی مفت فراہم کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ ادویات کی بڑھتی قیمتیں اور ملک میں طبعی سہولیات کا فقدان مر ی ہوئی عوام کو مزید مار رہا ہے۔یہاں بھی اضافے سے سرمایہ دار کو ہی فائدہ ہوا۔
گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں آئندہ دو ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا جس کے مطابق شرح سود اضافے کے بعد 6 فیصد کردی گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ شرح سود بڑھانے کا مقصد معاشی نمو کو روکنا نہیں بلکہ اس کی رفتار کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے طوفان اٹھنے کا اندیشہ ہیں اور شرح سود میں اضافے کا قرضوں پر بھی براہ راست اثر مرتب ہوا کرتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ سے ملنے والے کولیشن فنڈ اورساتھ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی براہ راست اثر انداز ہوگا۔ ڈالرکی قیمت بڑھنے سے قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کے ساتھ باہر سے خریدے جانے والے مال کی ادائیگی زیادہ کرنی پڑے گی۔ اس ساری صورت حال سے غربت میں مزید اضافہ ہو گا‘ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے لیکن عوام کو ابھی تک کوئی بڑا رریلیف نہیں دیا جاسکا۔
دنیا میں سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم سے بھی غربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ پوری دنیا کے سرمائے پر چند فیصد لوگ قابض ہیں جو اپنی دولت اور سرمایہ بڑھانے کی غرض سے کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ اس معاشی عدم استحکام سے بدامنی اور معاشرتی ناانصافیاں بڑھ رہی ہیں ‘ حال ہی میں ہونے والی ورلڈ اکنامکس فورم میں دنیا بھر سے اہم سیاسی، اقتصادی، سماجی ، طبی اور دیگر زندگی کے ہر شعبہ سے وابستہ ماہرین نے شرکت کی جس میں یہ بات موضوع باعث رہی کہ دنیا سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ‘اس فورم سے پہلے ایک انٹرنیشنل ادارے اکس فیم کی رپورٹ شائع کی جاتی ہے جس کو اس فورم میں شامل شامل کیا جاتا ہے اس رپورٹ کی روشنی ماہرین اپنی رائے دیتے ہیں۔
اس مرتبہ اکس فیم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دولت میں ہونے والے اضافے کا 82 فیصد حصہ صرف ایک فیصد دولت مند افراد کے ہاتھ لگا۔ جبکہ دنیا میں 3.7 ارب افراد کی جائیداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی آبادی سات ارب سے زیادہ ہے جس میں آدھی سے زیادہ آبادی کی حالات ویسی ہی رہی جبکہ اس کے برابر تعداد ان کی بھی ہے جن سے حالات مزید پستی کی طرف چلے گئے ہیں۔ اس اقتصادی نہ برابری کی وجہ سے آج ہر جگہ عام لوگوں میں زبردست غصہ پایا جاتا ہےجس کا وہ اظہار کسی نہ صورت میں کرتے رہتے ہیں۔
ملک میں اگر مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہے تو موثر اور عملی اقدام اٹھائے جائیں ‘ جس کے لیے سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔ٹیکس کا دائرہ کار عام آدمی کی بجائے سرمایہ داروں تک محدود کیا جائے‘ کیفیت شعاری سب پر لاگو کی جائے‘ جس کا اطلاق صرف بچاری عوام پر نہ ہو بلکہ اس کی مثال حکمران قائم کر کے دکھائیں۔زراعت کے شعبہ کو ترقی دے کر برآمدات میں اضافہ کیا جائے ‘ تب جا کر ہم مہنگائی جیسے جن کو قابو میں لاسکیں گے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں