The news is by your side.

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

آج صبح میں اسے دیکھ کر چونک اٹھی۔ ایسا نہیں کہ آج پہلی مرتبہ دیکھا تھا بلکہ یہ تو وہ ہے جس کا بچپن سے لے کر آج تک روزانہ کئی بار سامنا کیا ہے، گھنٹوں اس کے سامنے کھڑی رہی ہوں لیکن آج پہلی بار دل میں اس کے لئے عجیب سی محبت جاگی تھی۔ جذبات نے سَر اٹھایا تھا اور اچانک میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے بہت نرمی اور پیار سے اسے چُھوا اور الوداعی نظر ڈال کر ایک قریبی عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے روانہ ہو گئی۔ تقریب میں سبھی نے میرے بناؤ سنگھار کی تعریف کی۔ میری کزنز کو خاص طور پر میرا ہیئر اسٹائل اور ڈریس بہت پسند آیا۔

میں نے دل میں اعتراف کیا کہ وہی ہے جس کی وجہ سے یہ ستائش اور تعریف میرا مقدر بنی۔ چلئے آپ کو اس کا نام بتا دیتی ہوں۔ اردو میں آئینہ کہتے ہیں اسے اور انگریزی میں مرر۔ یہ ہمارے استعمال کی ایک عام شئے ہے، لیکن اس کا کام بہت خاص ہوتا ہے۔ ہم روزانہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سجتے سنورتے ہیں۔ مرد ہو یا عورت دن میں کئی مرتبہ اپنے سراپے کا جائزہ لیتے اور اس میں اپنی صورت اور ملبوسات کو دیکھ کر نظر آنیوالی کوئی بھی کمی بیشی دور کرلیتے ہیں۔ ہم آئینہ کچھ روپوں کے عوض بازار سے آسانی سے خرید لاتے ہیں۔ کوئی اپنے گھر کی کسی دیوار پر اسے لٹکا دیتا ہے تو کہیں یہ سنگھار میز میں جڑا ہوا نظر آتا ہے، لیکن ہر شکل میں اور ہر جگہ ہمیں ایک آئینے کی وجہ سے ہی اپنا حلیہ درست کرنے، سولہ سنگھار اور زیبائش میں مدد ملتی ہے۔

یہ امیر اور غریب میں بھی تفریق نہیں کرتا۔ اسے مرد اور عورت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ بچے سے لے کر بوڑھے تک کو خوش آمدید کہتا ہے اور سب کا ایک جیسا ساتھ دیتا ہے۔ جو بھی اس میں اپنا آپ دیکھنا چاہے، دیکھ لے اور یوں ہم سب کئی بار آئینے میں اپنا آپ دیکھتے ہیں۔ مگر بچپن سے آج تک اپنا ساتھ دینے والے آئینے کو ہم نے کسی قابل ہی نہیں سمجھا۔ اس کے روبرو کھڑے ہو کر تیار ہونے کے بعد جب ہم اپنے دفتر یا کسی تقریب میں پہنچتے تو لفظ آئینہ ہمارے ذہن میں کہیں گونجتا تک نہیں ہے۔ کسی محفل میں اس کی اہمیت اور افادیت پر کبھی دو لفظ نہیں سنے۔

یوں تو ہر محفل میں موضوع طرح طرح کے نکلتے ہیں، سیاست، ادب، سماج سے لے کر جدید سائنسی ایجادات پر کم پڑھا لکھا آدمی بھی بات کرنا چاہتا ہے۔ لوگ انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز، روبوٹ، اسپیس شٹل، ڈرون اور کن کن اشیاء کا ذکر نہیں کرتے جو انکی زندگیوں کو آسان بنا رہی ہیں، مگر آئینے کا کوئی نام نہیں لیتا۔ کوئی اس غریب کو شاباشی نہیں دیتا، اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا کہ بھیا تیری وجہ سے عیب چھپانے، خامیاں دور کرنے کا موقع ملتا ہے، محفل میں بھرم قائم رہتا ہے اور لوگ تعریف و توصیف پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اب آتے ہیں شعراء کی طرف جنھوں نے عام لوگوں کے برخلاف آئینے کا نہ صرف بہت زیادہ ذکر کیا بلکہ لاکھوں اشعار ایسے ہیں جن میں آئینے کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے لیکن اسے شاعروں کا جذبۂ احساس نہیں بلکہ ان کی مجبوری کہوں گی۔ دراصل اس کی وجہ صنفِ نازک ہے اور حسن و جمال شعراء کی بڑی کمزوری رہا ہے۔ آئینے سے عورت کی گہری دوستی ہوتی ہے اور اسی لئے شعراء آئینے پر اشعار لکھ کر ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خیر، یہ تو مذاقاً ایک بات کہی ہے۔ آج میں نے سوچا کسی پیچیدہ مسئلے اور بھاری بھرکم موضوع پر قلم اٹھانے کی بجائے اپنے قارئین کو بامقصد اور ہلکی پھلکی تفریح کا موقع دوں تو یہ تحریر سامنے لے آئی۔ اب اس شعر کے ساتھ رخصت ہوتی ہوں۔

چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

+ posts

سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں