ہمارے معاشرے میں سیاست نے ایک ناسور کا پودہ لگایا تھا، یہ غالباً 1990ءکو لگا تھا پھر باریوں کا سلسلہ شروع ہوتا گیا، اس دوران یہ پودابھرپور ہوکر پھل دینے لگا، اس درخت کی ہر ٹہنی پر حرص، لالچ، چوری، رشوت ستانی، قتل و غارت گری کا پھل نمودار ہوا، جسے کھا کر اخلاقی و معاشرتی برائیوں نے جنم لینا شروع کردیا اور یہ ناسور کا درخت بہت عمر رسیدہ ہوگیا۔ اب اس میں پانی نہ دینے کی وجہ سے آج کل جو سیاسی حالات ہیں اور جن الزامات کے تحت سزائیں مل رہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری عزت مآب سپریم کورٹ اور اس کے قابلِ احترام جج حضرات شاید اس پودے کو جڑ سے ہی نکال دیں مگر اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
خیر کوئی بات نہیں، ایک نہ ایک دن اس مفلس اور غریب عوام کے دن بھی بدل جائیں گے، جن سیاسی لوگوں نے عوام کو پستی کی گہرائیوں میں ڈبو دیا تھا، اب وہ خود پستی کی طرف دوڑتے چلے جارہے ہیں، آج کل کی سیاست دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کے تحت اس منزل پر پہنچنے کی کوششیں کررہے ہیں، جہاں یہ جمہوریت اور اپنی شان وشوکت اپنے ہی ہاتھوں سے دھو بیٹھیں گے۔
ویسے بھی اس غلیظ سیاسی دنگل کی وجہ سے عوام نے بیزاری کی چادر اوڑھ لی ہے، ارب پتی اور کھرب پتی جب اپنی کرپشن کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں تو پھر باہر چلے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا ان کی محرومیوں کو دکھا رہا ہوتا ہے۔ وہاں یہ ٹیکسیوں میں سفر کرتے ہیں، کوئی دوست احباب ان کو اپنی گاڑی تک نہیں دیتا۔ یہ سب سوشل میڈیا پر قوم دیکھ رہی ہے۔
خواتین کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں ان کے ملبوسات کچھ ہوتے ہیں اور غیر ممالک میں کچھ اور ہوتے ہیں، غیر تعلیم یافتہ اور معصوم طبقہ انہیں پاکستانی ڈریس میں دیکھتا ہے تو وہ اسے علم کا دروازہ نظر آتی ہیں جبکہ تعلیم یافتہ طبقہ انہیں دیکھ کر ہنستا ہے مگر چونکہ اب احتسابی عمل کا بیج ڈالنے کی کوششیں کی گئی ہیں اور چھوٹا سا پودا بھی پیدا ہوگیا ہے تواب اس میڈیم کلاس تعلیم یافتہ طبقے کو خوشی ہے کہ یہ پودا تناور درخت بھی بنے گا۔
اپنے لیڈروں کو بچانے کے لئے ان چند چھوٹے سیاست دانوں نے اپنی ذمے داریاں چھوڑ کر عوام کے مسائل کو مٹی کے ڈھیروں کے ساتھ بند کردیا ہے۔ 2013ءمیں الیکشن ہوئے، اپوزیشن نے مثبت کردار ادا نہیں کیا، کوئی اسمبلی سے غیر حاضر رہا، عوام کے مسائل قومی اسمبلی میں حل نہیں کئے گئے، اس سے برسرِ اقتدار طبقے نے خاموشی اختیار کرلی اور اپنے چاہنے والوں کی اور اپنی وزارتوں کی حفاظت میں آئینی دیوار بن گئے۔
اگر یہ حقیقت نہیں تو تم اس وقت کیوں چپ تھے جب ملاوٹ ہورہی تھی، بچوں کو نقلی دودھ پلایا گیا، گدھے کا گوشت کھلایا گیا، ناپ تول کا نظام تباہ ہوگیا، اس شہر میں بھتے اور قتل و غارت گری ہورہی تھی یہ قوم روتی رہی اور تم چپ تھے۔ تمام محکموں نے خاموشی اختیار کرلی، اس شہر میں ٹریفک کا نظام تباہ ہوگیا، کنڈوں سے بجلی حاصل کی گئی اور کے الیکٹرک کنڈوں کا رونا روتی رہی کہ کون لوگ بجلی ناجائز استعمال کررہے ہیں جبکہ قوم کا اس سے کیا واسطہ۔۔۔ مختلف شعبے کے افراد کنڈوں سے اپنا کاروبار کرتے رہے اور کررہے ہیں۔قوم نے ٹھیکہ لیا ہے یہ محکمہ کیا کررہا ہے۔
فنکشنل مسلم لیگ کی ایم پی اے نصرت عباسی نے اسمبلی میں بیان دیا، جو اخبارات کی بھی زینت بنا کہ سندھ میں 2017ءمیں 1894 بچے لاپتہ ہوئے، اس کے لئے کوئی حل نکالا گیا، ہاں اگر کسی بڑے نام والے کا بچہ اغواءہوتا تو یہ تعداد اتنی نہیں ہوتی بلکہ اپوزیشن اور برسرِ اقتدار سب ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے اور آنسو بہارہے ہوتے مگر غریب کے بچے تھے، مٹی ہوئے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار گردن اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے لندن کے اسپتال میں داخل ہوگئے، یہاں قوم کے پاس گردن میں کالر خریدنے کے پیسے نہیں اور اسپتال دوائیوں سے محروم ہیں۔
سیاسی حضرات کہتے ہیں کہ شرعی سزائیں نافذ کی جائیں، نافذ بھی تو آپ سیاسی لوگ قومی اسمبلی سے پاس کروائیں گے۔ قصور کی زینب بے قصور ماری گئی، 1981ءمیں لاہور باغ پورہ تھانے کی حدود میں پپو نامی بچہ اغواءہوا بعد میں اس کی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی۔ ضیاءالحق (مرحوم) کا دور تھا، قاتل گرفتار ہوئے فوجی عدالت سے ٹکٹکی پر لٹکائے جانے کا حکم ہوا، تین دن بعد ٹکٹکی وہاں گئی جہاں آج کل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے، پورے لاہور نے دیکھا پھانسی کیسے لگائی جاتی ہے۔ چاروں اغواءکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔
فوجی جنرل ضیاءالحق کا حکم تھا لاشیں غروبِ آفتاب تک لٹکی رہیں، اس کے بعد دس سال تک کوئی بچہ اغواءاور قتل نہیں ہوا پھر جمہوریت بحال ہوگئی اور ہمارے سیاست دان حضرات نے آئین اپنے زیرِ استعمال کرلیا اور جمہوریت قوم کو دے دی۔ جمہوریت زندہ باد۔۔۔ اب یہ شرعی سزائیں کیسے نافذ ہوں گی۔
ایک دفعہ یہ سیاسی حضرات بغیر پروٹوکول کے نکلیں اور کچھ ہوا تو واقعی شرعی سزائیں نافذ ہوجائیں گی۔ ان سیاست دانوں نے اپنا مکمل انتظام کر رکھا ہے، ان میں دشمن اور دوست سب ایک پلیٹ فارم پر علمی و ادبی حلقوں کی طرح کھڑے ہیں اور قوم کو صبر کے شامیانے میں کھڑا کردیا ہے، جو بے احتیاطی کی ذرا سی ہوا میں چلنے پر سب کچھ برباد کردیتا ہے۔
قصور کی زینب کے ساتھ پیش آنے والی درندگی ہمارے معاشرے سے اٹھتی سڑاند اور تعفن کی ایک اور جھلک ہے جو روزانہ ہی چاروں صوبوں سے اٹھتی نظر آتی ہے۔ قارئین میری بات کے اخبارات گواہ ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ قوم کو ابھی کچھ اور پستی کا سفر کرنا ہوگا مگر اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔ بہت جلد اس ملک کے حالات بدلنے والے ہیں اور ایسے بدلیں گے کہ قوم سوچ بھی نہیں سکتی۔
گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ایک ہندو کمیونٹی کے فرد سے مختصر ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ پاکستان ہندو کو نسل کے بانی اور سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش کمار نے سندھ بھر کے نوجوانوں کو رشتہ ازدواج سے منسلک کرایا جبکہ وہ اس سے قبل ایک ہزار نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ملک بھر سے منتخب کرکے رشتہ ازدواج سے منسلک کرچکے ہیں، اس موقع پر ایک لاکھ روپے کی مالیت کا جہیز بھی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اقلیت کو بہتر سہولتیں اور مراعات حاصل ہیں اور ہندو کمیونٹی کے لوگ مکمل آزاد اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔
ڈاکٹر رمیش کمار نے اپنی کمیونٹی کے لئے اچھا کام جبکہ 2017ءکے اخبارات میں ایک خبر آئی کہ ون ڈش اور رات 12 بجے تقریب ختم کی جائے گی مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ شادی میں صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی، اس کے بعد شادی ہال والے شدید غیظ و غضب کا شکار ہوئے۔
اس واقعے پر وزیراعلیٰ کو مٹی ڈالنی پڑی جبکہ راقم نے ون ڈش کے حوالے سے ایک تفصیلی آرٹیکل بھی آپ کی نذر کیا تھا کہ ون ڈش کو چھوڑئیے، کھانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور ہال رات کو ساڑھے دس بجے مکمل بند کروائے جائیں مگر چونکہ یہ غریبوں کا معاملہ اور بے یارو مددگار حضرات کا قصہ تھا، لہٰذا اس بیان کو راکھ میں اس طرح دبا دیا جیسے شکرقند کو دبایا جاتا ہے جبکہ عام آدمی کو معلوم ہے بااثر افراد اور اعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات یقیناً اس پر عمل نہیں کرتے اور پھر جو ان کا دل چاہتا ہے وہ پروٹوکول کے تحت کرتے ہیں۔
میری تو رائے ہے کہ سپریم کورٹ کے قابلِ احترام جج صاحب از خود نوٹس لے کر ان کھانوں پر پابندی عائد کریں، آپ یقین کریں محترم، میں نے ایسے بھی افراد دیکھیں ہیں کہ جہیز تیار ہے تو کھانے کے پیسے نہیں اور کھانے کے پیسے ہیں تو جہیز کے حصول کے لئے مشکلات ہیں، جس کی پچیس ہزار تنخواہ ہے وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ کیسے پیلے کریں، جب سے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لینے شروع کئے ہیں مجھے اپنے پاکستان میں پشت پناہی کا سلسلہ ٹوٹتا نظر آرہا ہے، جس طرح ہماری عدلیہ متحرک ہوئی ہے اور خوب صورت فیصلے منظرِ عام پر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے سول سوسائٹی اور قوم ناکامی اور دل گرفتہ کی ٹیرس سے اتر رہی ہے۔
عدالتی قوانین نے مختلف مکتبہ فکر کے دلوں میں امید کا چراغ روشن کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے پانچ ماہ وطن عزیز کے لئے بہت اہم ہیں، جو کرپشن کے ناسور سے بچے گا وہ دیکھے گا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں