موت اگر زندگی کی حد ہے تو اسٹیفن ہاکنگ اسی دن مر گیا تھا جب اس کی زندگی ایک وہیل چیئر تک محدود ہوئی تھی‘ اس کے آگے امکان کی سرحدیں اپنی جسمانی قوت سے عبور کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہا تھا‘ لیکن زندگی اگر زمان و مکاں سے ماورا بھی کسی شے کا نام ہے تو خود طبعیات کے نظریے کے مطابق مادہ کبھی فنا نہیں ہوسکتا ‘ اسٹیفن ہاکنگ سائنس کے جہان کا وہ مادہ ہے جس کا فنا ہوجانا اب کسی بھی طور ممکن نہیں ہے‘ کم از کم اس وقت تک تو نہیں جب تک یہ زمین باقی ہے جہاں اپنی کمپیوٹرائز وہیل چیئر پر بیٹھ کر وہ آسمانوں سے آنے والوں کی راہ تکا کرتا تھا۔
میں نے ایک بار ایک رپورٹ پڑھی جس میں زمان و مکاں کی کسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے اسٹیفن ہاکنگ ایک شام کسی انجان مخلوق یا مستقبل سے سفر کرکے آنے والے کسی مہمان کے لیے چائے کا اہتمام کرکے ان کا انتظار کررہا تھا‘ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ زمانہ ٔ قدیم میں کوئی مجبور انسان آسمانوں سے اترنے والے کسی اوتار کا انتظار کرے‘ لیکن اسٹیفن کے لیے زمانہ بدل چکا تھا‘ اس نے اپنی مجبوریوں کو خود پر حاکم نہیں ہونے دیا ‘ سو اسے کسی اوتار سے زیادہ کسی ایسی مخلوق کا انتظار تھا جو ہماری کائناتی تنہائی کا سدباب کرسکے۔
تنہائی‘ ہی وہ واحد خوف ہے جس سے انسان ازل سے لے کر آج تک خوفزدہ ہے‘ یا یوں کہہ لیں کہ تنہائی ہی وہ قوت ہے جو انسان کو آگے بڑھنے اور روابط استوار کرنے کے لیے مہمیز کرتی ہے‘ اس موقع پر میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ تنہائی وہ عذاب ہے جو اس کائنات میں بھوگنا کسی صورت ممکن نہیں سو کوئی بھی اس وسیع و عریض نظام میں اکیلا و تنہا نہیں سوائے اس کے جو اس سارے نظام کا خالق ہے۔ شاید وہی اتنا طاقت ور ہے کہ تنہائی کا بوجھ تنہا ہی اٹھا سکتا ہے۔
انسان نے ہزاروں سال قبل زمین پر آباد دیگرممالک کی کھوج شروع کی تھی اور آج یہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے اور کوئی بھی یہا ں تنہا نہیں ہے‘ اس سے آگے کا مرحلہ یہ ہے کہ کیا واحد ہم ہیں جو اس کائنات میں سانس لیتے اور سوچنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں یا کوئی اور بھی۔ اسٹیفن ہاکنگ کا ماننا تھا کہ ہمیں اپنی اس کائناتی تنہائی پر راضی ہوجانا چاہیے کہ کسی اور مخلوق کی موجودگی دونوں صورتوں میں خطرناک ثابت ہوسکتی ہے‘ یا تو وہ اس قدر معصوم ہوں گے کہ ہم ان کے حق میں آزار بن جائیں گے یا پھر وہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ پلک جھپکتے میں ہمیں ملیا میٹ کردیں اور ہم بے بسی سے آسمان سے اترتی ان بلاؤں کو دیکھتے رہیں جن کی قوت کے سامنے ہم بے بس ہوں گے۔
ویسے تو ہاکنگ اور بھی بہت کچھ مانتے تھےلیکن اس کو ماننے میں ہمارے لیے‘ ہم زمین کے ذلیل ترین طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے شدید ترین مسائل ہیں لیکن ایک بات جو ہم بھی مانتے ہیں اور وہ بھی مانتے ہیں وہ یہ ہےکہ’’ محبت فاتح عالم ہے‘‘۔ انہیں یقین تھا کہ ایک دن کائنات کے دروازے کھلیں گے اور ہم کسی ایسے سے ملیں گے جو ہم سے مختلف ہوگا‘ اس وقت اگر ہمارے ہتھیار کام نہ آئیں تو شاید یہ محبت کا جذبہ ہوگا ‘ جو ہماری بقا کاجواز بن سکے گا۔
آج اسٹیفن کے جانے سے ا س جہاں میں کوئی خلا پیدا نہیں ہوا‘ پاکستان میں تو شاید معدودے چند لوگوں کے سوا کسی کو پتا بھی نہ چلے کیسا نابغہ اس جہاں سے رخصت ہوچکا‘ ہاں خلل پڑے گا تو ان خلاؤں میں اور مستقبل کے اس جہاں میں ‘ جہاں سے کسی کے آنے کے امید دل میں لیے اسٹیفن ہاکنگ شام کی چائے پر انتظا ر کیا کرتا تھا۔ میں سائنسداں نہیں لیکن میں آج کی شام اپنی چائے اسٹیفن ہاکنگ کے نام سے موسوم کرتا ہوں اس امید پر کہ کبھی نہ کبھی ہم جہالت اور ذلت کے وہ لبادے اتار پھینکیں گے ‘ جو ہم نے صدیوں سے خود پر مسلط کررکھے ہیں اور پھر ایک دن کائنات کے دروازے کھلیں گے اور افق کے اس پار سے آنے والے کے استقبال کرنے والوں میں ہم بھی شامل ہوں گے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں