The news is by your side.

کیا سوشل میڈیا پر بیٹھے یہ دس کروڑ واقعی جہل کا نچوڑ ہیں؟

سعدیہ عارف

یہ جو دس کروڑ ہیں ،جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی کھینچ لے زباں ، ان کا گھونٹ دے گلا

حبیب جالب کی آج سے تین دہائیاں پہلے کہی گئی یہ نظم آج پہلے سے بھی کہیں زیادہ سچی معلوم ہوتی ہے۔لیکن کیوں؟ ہمارے ملک میں پائی جانے والی عوام نام کی ایک انتہائی معصوم مخلوق بھی ہے جنہیں جہاں بھی لگاؤ بیچاری بھیڑ بکریوں کی طرح چپ چاپ لگ جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے جذباتی تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے کی کردار کشی کر کے عوام کومشتعل کرتے ہیں اور انہیں ہتھیارکے طور پر استعمال کرتے آ رہے ہیں ۔ اور اب تو سوشل میڈیا نے سیاستدانوں کے لئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے اس گندے کھیل کو مزید آسان بنا دیا ہے ۔

کوئی بھی شوشا بلاوجہ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر چھوڑیں اور پھر دیکھیں انٹرنیٹ کی دنیا کا کمال۔ ایک منٹ میں کسی کی بھی عزت کا فالودہ بن جائے گا، اور اس کے سر پرغائبانہ جوتا بھی پڑجائے گا، اور آپ کی طرف کوئی انگلی بھی نہیں اٹھائے گا۔ واہ رے ٹیکنالوجی تیرے کارنامے۔

سوشل میڈیا آج کل سب سے بڑا ہتھیار بن گیاہے ۔جس پہ آج کل دل کھول کے کسی بھی سیاسی پارٹی کے کارکنان دوسری پارٹیوں کے قائدین کیلئے ایسے ایسے مضحکہ خیز اور واہیات جملوں اور گالم گلوچ کا استعمال کررہے ہیں کہ انسانیت بھی شرم سے ڈوب کر مر جائے ۔ ہر سیاسی پارٹی کا اپنا سوشل میڈیا سیل ہے جس کے ذریعے وہ عوام تک رسائی کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاسی لیڈران کو بھی نشانے پر رکھے ہیں۔ ذراکسی بھی پارٹی کا آفیشل پیج تو وزٹ کریں ، وہاں پوسٹ کی گئی مخالف سیاسی قائدین کی اخلاقیات سے گری تصاویر اور بے ہودہ فقرے بازی دیکھ کر سر نہ چکرا جائے تو بتائیں۔ وہ کہتے ہیں نا، جیسی روح ویسے فرشتے، تو پھر جیسے قائد ویسے ہی ان کے پیروکار۔ ان پوسٹس پر فالورز کا ردعمل بھی ناقابلِ برداشت حد تک ذلت آمیز ہوتا ہے۔اور سب یہ جانتے ہوئے بھی کہ سوشل میڈیا پرآنے والی پچانوے فیصد خبریں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں لیکن پھر بھی یہ بائیس کروڑ عوام سوشل میڈیا پر آپس میں ایسے لڑتی ہے جیسے بھارت سے کشمیر آزاد کرانے کا مسئلہ ہو۔

ٹویٹر اور فیس بک جیسی ایپس پر لائکس اور فالورز بڑھانے کے چکر میں سیاسی قائدین کے شستہ جملے پکڑ کر ان کا مذاق بنانے کا رواج ہی چل پڑا ہے ۔نااہل ہونے کے بعد بڑے میاں صاحب کا مجھے کیوں نکالا ایسا مقبول ہوا کہ ٹرولنگ کرنے والوں نے انڈے سے نکلنے والے چوزے کے منہ میں بھی یہی فقرا فٹ کر دیا۔ مریم نواز شریف نے بڑے سٹائل میں بولا تھا ۔۔ روک سکتے ہو تو روک لو ۔۔ بس پھر آج تک یہ جملہ ہی کسی سے روکا نہیں جا رہا۔ اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کے ذہین فطین کرتے دھرتوں کا ۔۔ جنہوں نے نواز شریف کے نااہل ہونے پر اور پھر کئی مقامات پرتسلسل کے ساتھ یہی فقرہ مریم بی بی کو واپس پلٹایا۔

چھوٹے میاں شہباز شریف کاحبیب جالب کے شعلہ بیاں انداز میں گاہے بگاہے میں نہیں مانتا کی گردان بھی خاصی مشہور ہوئی۔ عمران خان کہاں کسی سے پیچھے ہیں نیا پاکستان بنانے کے لئے عوام کو دھرنوں میں گھسیٹتے پھرے اور آ خر میں بولے میں نیا پاکستان اس لئے بنانا چاہتا ہوں تا کہ میں شادی کر سکوں ۔ بندا پوچھے پرانے پاکستان میں کیا کسی کی شادی نہیں ہوتی تھی۔ اب سوشل میڈیا کے ایسے معصوم ٹرولرز کیسے چپ بیٹھیں گے جو بلاول بھٹو زرداری کو ان کی ٹوٹی پھوٹی اردو کی وجہ سے پہلے ہی نشانے کی زد پر رکھتے ہیں۔یہ سوشل میڈیا والوں کی ہی تو مہربانی ہے کہ بے چارے مولانا فضل الرحمن خود اپنے لیے ایک واہیات نام سن کر بھی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

ابھی تازہ تازہ جو جوتے برسانے کی مہم نے طول پکڑا ہے تو اس کی کڑیاں بھی سوشل میڈیا پر مچی بدتمیزی کی دھوم سے ہی جڑتی ہیں۔ وقتی قائدین نے اپنے سوشل میڈیا ممبران کے ذریعے گند اگل اگل کر عوام کو اس حد تک زچ کر دیا ہے کہ اب لوگوں میں قوتِ برداشت نام کی چیز باقی ہی نہیں بچی۔ وہ اپنے لیڈر کے علاوہ باقی لیڈروں کو جھوٹا اور فریبی سمجھتے ہیں جس کے نستیجے میں اس طرح کے پرتشدد عوامل خبر کی زینت بنتے ہیں ۔

پارلیمنٹ نے 2016 میں اس قسم کے مواد کی روک تھام کیلئے سائبر کرائم جیساقانون بنایا تو لیکن اس پر مکمل عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا کے ذریعے ٹرالنگ کا یہ جرثومہ دن بدن بڑا اور طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور اگر اسے یہاں فل سٹاپ نہ لگا تو سوشل میڈیا کے پینل پہ بیٹھے ہمارے پڑھے لکھے نوجوان بھی جہل اس اندھیرے گڑھے میں دھنستے جائیں گے ۔ اظہار رائے کرنا جرم نہیں لیکن الفاظ کا چناؤ اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کرنا سلجھے ہوئے معاشرے کی پہچان ہے ۔لیکن کاش ہمارے ذی شعور قائدین اور ان کے سوشل میڈیا کارکنان یہ بات سمجھ پائیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں