The news is by your side.

گناہ کی بستی سے نویدِ حیات

جسم فروشی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ، معاشرتی ارتقاکے ساتھ ہی جب کبھی پہلی انسانی بستیاں آباد ہوئی ہوں گئی اورمختلف پیشوں نے جنم لیا ہوگا تو ایک پیشہ ایسا بھی شروع ہوا جوکہ اپنے جسم سے کسی مرد کی پیاس کو معاوضے کے عوض بیچ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہوگا ۔ یہ پیشہ اختیار کرنے والی حوا کی بیٹی دن کی روشنی میں قابلِ نفرت اور رات کے اندھیرے میں قابل ِمحبت قرار دی جاتی ہوگی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔اس لونڈی ، طوائف ، باندی یا کال گرل کو کبھی سنگسار بھی کیا جاتا ہے تو کبھی اسے برائی و گناہ کا مرکز قرار دے کر محلہ و شہر بدر بھی کیا جاتا ہے، کبھی قانون اسے پابند سلاسل بھی کرتا ہے اور قانون کا سہارا لے کر مرد کی ذات اسے آزاد بھی کرواتی ہے ‘ مرد کوٹھے پر جا کر اپنے مرد ہونے کی انا کی تسکین بھی کرتا ہے تو شرافت کا لبادہ اوڑ کر اس سنگسار کرنے کی بات بھی کرتا ہے‘ گناہ خود کرتا ہے اور گناہگار اسے قرار دیتا ہے۔

یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا مثالی معاشرہ کے نظریات پیش کرنے والے بھی اس پیشے کو ختم کرنے کی باتیں ضرور کرتے لیکن ایسا کیونکر ممکن ہے نہیں بتا سکتے ۔ فلسفہ ادب اخلاقیات کے مضامین میں اس پربہت کچھ لکھا گیا۔ عبادت گاہوں کے پادری ‘ پروہت اور مولوی سے لے کر حکومتی ایوانوں تک اسے سراپا جرم، گناہ، معاشرتی تباہی ، نشان ِقیامت قرار بھی دیا جاتا ہے غرض معاشرے کی پوری برائی کا محور مرکز یہی پیشہ قرار دیا جاتا ہے لیکن کیا کسی نے اس پیشہ کے ان چھپے فوائد کا بھی ذکر کیا جن کی بدولت یہ بدنام زمانہ ہوکر بھی معاشرے کی کئی برائیوں کو اپنے دامن میں ڈال کر اپنے حصے کی دوزخ کی آگ تو بڑھا لیتا ہے لیکن کئی بے گناہوں کو گناہگار ہونے سے کئی گھروں کو اجڑنے سے یہاں تک کہ کئی جانوں کو بچانے کا ذریعہ بنتا ہے ۔

آئیں آج ہم اس پر ہی روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ جسم بیچنے والے کیسے معاشرے میں ایک مثبت کردار بھی رکھتے ہیں جس سےوہ خود بھی آگاہ نہیں ہوتے۔

معاشرے میں اچھائی اوربرائی کی طاقتیں ساتھ ساتھ برسرپیکرار رہتی ہیں۔ ایسے معاشرہ کا تصور جہاں برائی نہ ہو، ناممکن ہے انسان برے کیوں ہوتے ہیں یا وہ مائل بہ گناہ کیوں ہوتے ہیں۔اس کے پیچھے کئی محرکات ہوتے ہیں۔ جس میں ان کی سماجی تربیت ماحول کا اثر ہوتا ہے تو دوسری جانب کچھ لوگ فطرتاً مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ماحول کا اثر یا فطرت سے مجبور جب وہ اپنی گناہ کرنے کی خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو کوئی مجبورغریب اورلاچارعورت ان کا شکار بن سکتی ہے ۔کیا طوائف اس بے گناہ کو بچا سکتی ہے جی وہ ایسا بھی کرتی ہے،عام طور پریہی کہا جاتا ہے کہ طوائف گھروں کو اجاڑ دیتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ قارئین کرام مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ تلخ حقیقت بہرحال اپنے اندر ایک وزن رکھتی ہے جسم کا دھندہ کرنے والی یہ عورت غیرارادی طور پرمعاشرے کے لیے ایک مثبت کردار بھی ادا کرتی ہے۔ جس کو چند مثالوں کے ذریعے سمجھانے کوشش کروں گا۔

طوائف کسی گھر کو ٹوٹنے سے اس وقت بچالیتی ہے جب کوئی مرد اپنے مرد ہونے کے زعم میں دوسری شادی کی بجائے اپنی انا کی تسکین کے لئے اس کے ٹھکانے کا رخ کرلیتا ہے۔ اور وہ انا کیا ہوتی ہے؟

مردو ں کی برتری والی اس سوسائٹی میں مرد اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کی لئے کئی عورتوں سے اپنا تعلق بنا کر اپنی اس خواہش کی تکمیل چاہتا ہے کہ ایک سے زائد عورتیں اس کی محبت کا دم بھرتی ہیں۔ اس کی یہ ضرورت ایک طوائف یا جسم بیچنے والی عورت اگر پوری کردیتی ہے تو مرد دوسری شادی کرنے سے باز رہتا ہے جو کہ اس کے گھر کو بچا لیتی ہے کیونکہ بالآخر کار وہ مرد عمر کے ایک حصے میں واپس اپنے بیوی بچوں کی جانب لوٹ آتا ہے اور اس طرح ایک گھر ٹوٹنے اور مزید مسائل سے بچ جاتا ہے۔

طوائف اس وقت کسی کی عزت بچالیتی ہے جب سماج اور مزہب کے خوف سے کوئی حوس کا مارا شیطان کسی کی غریب لاچارعورت کی عصمت کو داغ دار کرنے کی بجائے یہ سوچ کر کہ وہ پکڑا نہ جائے اور معاشرے میں اس کی جو عزت ہے وہ نہ داو ٔپرنہ لگ جائے رات کے اندھیرے میں کسی جسم فروش کے اڈے پے چل نکلتا ہے جہاں اس کی گناہ کو خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے اور کسی معصوم کی عزت بھی بچ جاتی ہے۔

طوائف سماج کے بے لگام جنسی درندے کا رخ اپنی جانب متوجہ کرکے اس بیوہ کی بیٹی آبرو بچا لیتی ہے جس کی عزت لٹ جانے کے بعد اس کے پاس مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جسم فروشی کے اڈوں پر عام طور ایسے لوگ آتے ہیں جو کہ زیادہ تو جرائم پیشہ یا بدمعاش طبعہ ہوتے ہیں اگر ان کو ایسے ٹھکانے میسر نہ ہوں تو ان کی نظر کسی بے بس عورت یا کسی بیوہ کی بیٹی کی جانب بھی جاسکتی ہے ایسے سینکڑوں واقعات ہوجاتے ہیں کہ جس گھر میں مرد نہ ہوں تو یہ مجرمانہ ذہینت کے لوگ اس پر اپنی نظر رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان کی عزت سے بھی کھیل جاتے ہیں ۔ اس لئے طوائف یا دھندہ کرنے والی بے خبر رہتے ہوئے بھی معاشرے میں اپنا ایک مثبت کردار ادا کرتی ہے۔

کچھ مجرمانہ جنسی ذہنیت رکنے والے افراد کا سب سے آسان ہدف وہ معصوم بچے ہوتے ہیں جو کہ بڑی آسانی سے کسی ٹافی یا چاکلیٹ کے لالچ میں ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں اور یہ ان کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا ڈالتے اکثر کیسوں میں ان بچوں کو جان سے ہی مار دیا جاتا ہے کیوں کہ ان کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں اپنی زبان ہی نہ کھول دیں ،حال ہی میں قصور میں پیش آئے واقعات گیارہ بچیوں کو اس لئے مار دیا گیا کہ کہ وہ کہیں کسی کو بتا نہ دیں۔ لیکن اگر اسی مجرم کے آس پاس کوئی ایسی عورت ہوتی جو اس کو اپنا جسم پیش کردیتی تو شاید اس معصوم زینب ‘عاصمہ اورسمرین کی جان بچا لیتی ہے غرض ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے سماج کے اس کلنک سے بھی انسانی جان بچائی جاسکتی تھی۔

طوائف یا جسم بیچنے والی معاشرے کے سارے گناہوں کو سمیٹ کر اپنے بالا خانے یا کسی بدنام ہوٹل کے کمرے تک محدود کر لیتی ہے پورے معاشرے کو نہ سہی لیکن کسی نہ کسی کی آبرو عزت اور جان تک بچالینے کا سبب بن سکتی ہے۔ میرے اس تحریر کا مقصد ہر گز ہر گز اس پیشہ کی حمایت کرنا نہیں ہے اور نہ میں یہ کہے رہا ہوں کہ اس کو قانونی قرار دے کر ایک ایریا تک محدود کردیا جائے لیکن کچھ حقیقتیں اتنی تلخ ہوتی ہیں۔ کہ بطور ایک معاشرتی نقاد کے اس پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کررہا ہوں ۔ ایک شہر کا سارا گند کسی گندے نالےسے گزر کر ہی کسی جوہڑ میں جاکر گرتا ہے لیکن اگر اس نالے میں کوئی روکاوٹ آجائے تو پھر وہی گند اسی نالے سےباہر رسنا شروع کردیتا ہے اور اس شہر یا بستی کو گندہ کرنا شروع کرنا شروع کردیتا ہے ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں