میرا جسم ‘ میری مرضی کا نعرہ میں بحیثیت عورت مسترد کرتی ہوں ۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق کے علمبرداران نے ذومعنی الفاظ پر مشتمل نعرے کا چناو کیوں کیا ؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کے حقوق محفوظ کر دئيے تھے ‘ اور بنت حوا کو معاشرے میں قابل احترام مرتبہ عطا کیا ۔ اگر ہم یہ ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو پھر ہمیں کسی بشری عقلی نظریے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
مگر یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ اور حقوق دئیے ہیں جو اسلام نے مقرر کیے ہیں ؟ تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔ آج پاکستانی معاشرہ اسلامی طرزِ حیات بھلا چکا ہے ۔ عورت کا استحصال اور احساس محرومی ہماری خود ساختہ روایات کا شاخسانہ ہے ۔ کیا اسلام عورت کے استحصال کا اختیار مرد کو دیتا ہے؟ ہرگز نہیں !!! اسلام پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو وراثت اور خلع کا حق دیا۔ اسلام نے فکر ِمعاش کی ذمہ داری مرد کو سونپی اور عورت کو گھریلو امور سونپے ۔
اسلام نے چادر اور چار دیواری کا تقدس بحال کرکے عورت کو تحفظ دیا ۔ عورت کو حق مہر دیا اور بیوہ عورت کو دوسری شادی کا حق دیا ۔ مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی تو اعتدال کی سخت ترین شرط بھی عائد کی ۔ گھر سے باہرباحجاب رہنے کی تاکید کی‘ مگر ہم نے کیا کیا ؟ ہم نے اپنی خواتین کو گھرمیں قیدکردیا ۔ عورت پر گھریلو تشدد کا حق اسلام نے نہیں دیا ۔ مگر ہمارے معاشرے نے اس کے برعکس فرسودہ روایات کا دامن نہیں چھوڑا ۔ عورت کا حق وراثت تسلیم کرنے کی بجائے جہیز کو رواج دیا ۔ اسلام نے عورت کو معاش کی ذمہ داری سے آزاد کیا مگر ہم نے عورت کو بیگار پر کام کرنے والی گھریلو ملازمہ بنا کر رکھ دیا ۔ حق مہر اور حق خلع کو بوجھ سمجھا ۔ طلاق کو اپنایا مگر حلالہ کو نہیں ۔ بیوہ کی شادی کو معیوب سمجھا ۔
عورت کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنانا مرد نے اپنا حق سمجھا ۔ اسلام نے حق تعلیم دیا ‘ معاشرے نے چھین لیا۔ اسلام نے پسند کی شادی کی اجازت دی‘ مگر یہ ہماری غیرت کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ جب معاشرے میں عورت کو اس کا جائز مقام نہ مل سکا تو قصوروار کون ؟ مذہب یا معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج !!! مذکورہ بالا چند مثالیں ہماری غفلتوں کا پردہ چاک کرنے کےلیے کافی ہیں ۔ اسلام نے سزا وجزا میں مرد اور عورت کے لیے ایک جیسے قوانین اور حدود مقرر کیں ‘ جرم کا ارتکاب کرنے پر سزائیں مرد اور عورت کے لیے ایک جیسی مقرر کیں ۔ افسوس‘ ہم اپنے معاشرے میں اسلام کا نظام عدل نافذ ہی نہیں کر سکے ۔
ہمارا معاشرہ عدم مساوات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا گیا ‘ اور ہم الجھتے چلے گئے ۔ تو ایسے ماحول میں مختلف الخیال نظریات جنم لینا کوئی اجنبھے کی بات نہیں ۔ آج اگر کچھ مخصوص حلقے حقوق نسواں کو لے کر ہمیں حدف تنقید بناتے ہیں تو قصور وار ہم خود ہیں ۔ اگر ہمارا معاشرہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ ہوتا تو عورت کا معاشرتی استحصال نہ ہوتا اور نا ہی اس کی آڑ لے کر ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ جیسے بشری عقلی نظریات جنم لیتے ۔ ایسے نظریات کا جواز ہم نے خود دیا ہے ۔ آپ کسی بھی لبرل سے بحث کرلیں ‘ وہ اپنے مادر پدر آزاد نظریات کا دفاع کرنے کےلیے حقوق نسواں کی آڑ لے گا ۔ میں ایک مرتبہ پھرپر زور الفاظ میں ’’میرا جسم , میری مرضی ‘‘کا بشری عقلی نظریہ مسترد کرتی ہوں ۔ اس نعرے کے ذومعنی الفاظ قابلِ غور ہیں ۔
آخر حقوق نسواں کے لیے انہی بے ہودہ الفاظ کا چناو ٔکیوں کیا گیا؟ چادر اور چار دیواری کو بوجھ قرار دینے والی آنٹیاں ’’میرا جسم ‘ میری مرضی‘‘ کے نعرے کے دفاع میں عورت کے معاشرتی استحصال کی طرف توجہ دلا کر حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے بظاہر بہت فکر مند نظر آئیں گی تاکہ نا پختہ نوجوان لڑکیوں کو یہ نعرہ اپیل کروانے کےلیے حقوقِ نسواں کو بطور چارہ استعمال کیا جا سکے ۔ اور اس نظریے کے منفی پہلو کی طرف سے توجہ ہٹائی جا سکے جو کہ انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے ۔
جب ’’میرا جسم ‘ میری مرضی ‘‘ کا اصولِ زندگی اپنے نقطۂ کمال پر پہنچے گا تو پھر فحاشی‘عریانی اور بے راہ روی کا ہر در آزادی سے کھل جائے گا۔ اور جب آپ اپنی بہن ‘ بیٹی کو روکنا چاہیں گے تو جواب ملے گاکہ ’’ میرا جسم ،مرضی ‘‘ آپ ہوتے کون ہیں پوچھنے والے؟؟؟ ۔لہٰذا اس سے پہلے کہ یہ نظریہ طرزِ زندگی کا حصہ بن جائے ‘ اسے روکنا ہو گا ۔ ورنہ ہماری رہی سہی اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑ جائیں گی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت کو معاشرے میں وہ اعلیٰ اور قابلِ احترام مقام دیں , جس کا حقدار ہمارا مذہب خود عورت کو قرار دیتا ہے ۔ عورت کو علم و ہنر سے آراستہ کرکے اس کا شعور پختہ کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت ممکن ہو سکے ۔ عورت کو فرسودہ روایات اور رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑکر رکھنے کی بجائے عورت کو خود اعتمادی دینا ہو گی ۔ تاکہ عورت کا احساس محرومی ختم ہو ‘ اور اسے تحفظ حاصل ہو ‘ اور وہ زندگی کو پروقار طریقے سے گزار سکے ۔ کسی بھی بشری عقلی نظریے کی بجائے رضائے الہٰی ‘خشیت رسول ﷺ اور سیرت سیدہ کائنات حضرت فاطمہ ؓ کو مشعل راہ بنا کر ہی ایک اعتدال پسند اور متوازن اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہے۔