The news is by your side.

چٹانوں جیسا مضبوط باپ، جب میں ٹو ٹ کر بکھر رہی تھی

تحریر : صوفیہ کاشف

یہ اک ماں کی نہیں،اک باپ کی کہانی ہے ۔اک سخت گیر باپ کی جس کی دفتر سےگھر کے گیٹ پر آمد ہم ساروں کو بھگا کر اپنے کمروں میں پہنچا دیتی، باجیاں ڈوپٹے اوڑھ لیتیں، بھائی تابعدار ہو کر کمروں میں کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے۔ کوئی اجازت کوئی فرمائش کوئی ضرورت طلب کرنا اک مسئلہ تھی کون کہے کیسے کہے۔ ڈانٹ پڑے یا نہیں والد صاحب کا خوف اور رعب اس قدر زیادہ تھا کہ ان کا راتوں کو ہماری رضائیاں سیدھی کرنا، گھر میں فروٹس اور میوہ جات کے ڈھیر اور مہنگے مہنگے برانڈڈ ملبوسات اور اشیاء صرف پر کیا گیا خرچ کبھی دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔

ڈانٹ ڈپٹ ایسی بھرپور اور کڑی لگتی کہ اس کے بعد پاس بٹھا کر پیار کرنا پھر آئسکریم کھلانا ہمیں دکھائی ہی نہ دیتا ۔کسے خبر تھی اتنے سخت گیر باپ کے اندر اک ماں سے بھی نرم اک بلند حوصلہ باپ اور لوہے کا جگر ہے،جو اک ماں سے بھی بڑھ کر اپنی اولاد کو پروں میں چھپا لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر میں نے اور میرے سب بہن بھائیوں نے ہمارے باپ کا وہ رخ دیکھا کہ سب نے منہ میں انگلیاں داب کر اپنے ہی دانتوں سے کاٹ لیں۔اتنا صبر، اتنا ظرف، اتنا حوصلہ اتنی شفقت میرے روائتی باپ میں کہاں سے آیا۔ مجھے کسی دوست نے کہا کہ آزمائش صرف ایک انسان پر نہیں آتی ان سے متعلقہ لوگوں پر بھی ساتھ آتی ہیں اور انہیں پرکھتی ہیں۔ آزمائش مجھ پر آئی تھی مگر کامیاب و کامران ہو کر اس میں سے میرے والد صاحب نکلے تھے۔ ایسے کہ عمر بھر کے لئے زندگی کی طرف اور ان کی ذات کے لئے انہوں نے میری رائے اور رویہ بدل دیا۔ یہ تب کی بات ہے جب گریجویشن کے امتحان میں اک ذرا سی غلطی سے ناکام ہو گئی اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئی اور خود اپنے لئے، اپنے گھر, ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے نہیں اگلے تین سالوں تک کے لئےعذاب ِجان بن گئی۔

مجھے یاد ہیں وہ شامیں جب ٹیرس پر میرا ہاتھ پکڑے سخت سردی میں ابامجھے گن کر بیس چکر کی واک کرواتے تھے اور میں نیند کی گولیوں کے اثر میں سکڑی سمٹی ہلنے سے گھبراتی اور ہوا سے بھی ڈرتی تھی۔ ڈاکٹر کہتا اسے زندگی کی طرف راغب کریں، جسمانی ورزش کروائیں تا کہ اس کا جسم اور دماغ صحت کی طرف لوٹے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے واک کرواتے اور ساتھ ساتھ پیار سے میٹھے میٹھے نرم لہجے میں مجھے سمجھاتے کہ  ’’موجوں سے لڑو تند لہروں سے الجھو

چلو گے کہاں تک کنارے کنارے
سفینے وہاں ڈوب ہی جائیں گے
حوصلے ناخداوں نے جہاں ہارے

اور وہ کوئی پرتعیش دفتر کے جی ایم نہ تھے، نہ میں ان کی تنہا اولاد تھی جو وہ اتنی بالخصوص توجہ مجھے دے پاتے۔ وہ اک سرکاری محکمے کی اہم پوسٹ پر بیٹھے ایمان دار افسر تھے اور چھ بچوں کے باپ تھے۔ سارا دن سرکاری نوکری کی چخ چخ، شام کو مجھے لیے ڈاکٹروں کے،حکیموں کے درگاہوں کے چکر، رات بھر میرے سرہانے بیٹھ کر وظیفے اور دعائیں اور اگلی صبح پھر آفس ۔۔۔۔ کتنے مہینے میرے سرہانے ہر وقت ان کے پڑھے پانی کی بوتل میرے ساتھ رہی جس پر دعائیں پڑھنے والی ذات کسی مولانا کسی پیر فقیر کی نہیں میرے باپ کی تھی، تبھی اس کی تاثیر زیادہ تھی۔ میری سوچ اور خیال کے سب حرف مٹ چکے تھے، انہوں نے اپنی جرات سے اس پر نئی تحریر لکھ دی۔

میرے شعور اور الفاظ میں کوئی ربط نہ تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ میری ہر مشکل سمجھتے تھے۔ جب لوگ میرے لفظوں پر ششدر رہ جاتے،اور نظریں گھماتے، چہ میگوئیاں کرتے، ہنستے اور باتیں بناتے کہانیاں گھڑتے، وہ آگے بڑھ کر مجھے تھام لیتے، مجھے لوگوں کی زبانوں اور نظروں سے محفوظ کرتے اور میری طاقت بن کر کھڑے ہو جاتے۔

میں دنیا جہاں سے بے خبر اور میرے باپ کا صبر٬ ان کی ریاضت، آج میری خالی سلیٹ پر اگر لفظ ابھرتے ہیں تو ان حرفوں کے پیچھے، میرے وجود کا باعث, اگر میری زندگی اور میرے ہونے کی وجہ کوئی ہے، خدا کے بعد، تو وہ میرا باپ ہے جس نے اس وقت مجھے سہارا دیا جب ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا، جب کامیابی اور زندگی تک مجھ سے خفا تھی، جب امید اور رستے تک مجھ پر دور کھڑے ہنستے تھے، دوست احباب مجھ سے آگے نکل گئے تھے اور شعور ،لاشعور تک مجھے ٹھکرا چکے تھے ،میرے روایتی باپ نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، مجھے حوصلہ دیتے ہوے،مجھے دنیا سے بچاتے ہوئے میرے ساتھ کھڑے ہوئے، نہ صرف مجھ گری ہوئی کو اٹھایا بلکہ ایک بار پھر زندہ کر کے زندوں میں سر اٹھا کر کھڑا کر دیا۔ کئی ماہ کے ساکن دماغ میں اگر کچھ زندہ رہتا تھا تو وہ میرے باپ کے وہ فقرے وہ حوصلے تھے جو وہ لمحہ لمحہ مجھ میں انڈیلتے رہتے ورنہ دل دماغ کی ہر سلیٹ دھل چکی تھی۔

میں زندگی سے خفا دنیاسے ہر ناطہ توڑنا چاہتی وہ مجھے پکڑ کر دنیا کے سامنے کردیتے۔میں پیچھے ہٹتی وہ میرا بازو تھام کر آگے نکلتے۔ مجھے زندہ کرنے کی سب کوشش ان ہی کی تھی ورنہ میں تو اپنے خواب تک ہار چکی تھی۔ میں خود پر پشیماں تھی اور ہستی کو بیکار اذیت سمجھتی ،وہ میری زندگی کو رنگ دینے،اسے مقصد بنانے اور خواب دینے کا حوصلہ کرتے۔ مجھے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر سے اٹھنا سکھایا چاہے اس کے بدلے خود ان کے دامن میں کیسے ہی خسارے آئے ہوں۔ پھر سالوں بعد میرا دماغ اور دل سانسیں بھرنے لگا، زندگی کی نبض دھیرے دھیرے ہلنے لگی،زندگی پٹری پہ آئی اور بالآخر چلنے لگی اور تب میں نے مڑ مڑ کر ہزار بار اپنے باپ کو دیکھا کہ کیا یہی تھا وہ سخت گیر باپ جو اپنے سخت خول کے اندر ہمیں مغز کی طرح سنبھال رکھتا ہے۔ جب ساری دنیا آپ کے خلاف کھڑی ہو جائے تو وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر زہر کا پیالہ نہیں پلاتا بلکہ خود آگے بڑھ کر آپ کی جنگ لڑتا ہے۔

بہت سالوں سے یہ کچھ الفاظ میرے باپ کے نام کا قرض ہیں جو میں ان کی زندگی میں ان کو لوٹانا چاہتی ہوں اور ان کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کے جیسا عظیم باپ میں نے آج تک اس دنیا میں نہیں دیکھا۔ آپ کے جیسا پہاڑوں سا حوصلہ اور آسمانوں سا ظرف اس دنیا کی چیز نہیں۔ میں ایک ہزار تو کیا لاکھوں لفظ بھی لکھ دوں تو آپ کی شفقت محبت اور محنت کا قرض نہیں چکاسکتی جو آپ نے صرف ان دو سالوں میں ہی مجھ پر کر دیا پوری زندگی کے احسانات کا شمار تو ہمارے بس میں ہی نہیں۔ خدا ہر بیٹی کو آپ کے جیسا قابل فخر باپ دے! آمین!۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں