موڈیز کے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی معیشت آئندہ چند ماہ میں تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کا ذمہ دار کون ہوگا؟؟؟ وہ وقت دور نہیں جب ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے اس قدر بے بس ہو چکے ہوں گے کہ امداد کے عوض ہمیں ان کی من مانی شرائط تسلیم کرنی پڑیں گی۔
ہم تو پہلے ہی سودی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور سود کی ادائیگی کےلیے مزید سودی قرضوں کی دلدل میں پھنس چکے ہیں ۔ مجموعی غیر ملکی قرضے 94 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں ۔ زرمبادلہ کے ذخائر 2007 سے نیچے جا چکے ہیں۔ درآمدات برآمدات سے زیادہ ہوچکی ہیں ۔ پاکستان ہر سال تیرہ سو ارب ڈالر سود کی مد میں اداکرتا ہے۔ جی ایس ٹی کی شرح 17 سے 34 فیصد ہونے کے باوجود ہم پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں 147 ویں نمبر پر ہیں ۔ ایسی صورتحال میں دیوالیہ ریاست قرار پانے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہم سے جو بھی تقاضا کریں گے ، ہمیں وہ شرائط پورا کرنی ہوں گی اور یہ شرائط پاکستان کے دفاعی نظام پر حملے کی صورت میں نازل ہوں گی۔
ہوسکتا ہے کہ دیوالیہ معیشت کو سہارا دینے کے عوض ہمیں اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کو کہا جائے ۔ دفاعی اخراجات میں کمی کرنا بھی عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کا اہم حصہ ہوگا۔ ہمیں اپنی فوج سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشی طور پر دیوالیہ ریاست اپنی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ نہیں کرسکی ، سابق سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حالیہ دنوں میں روپے کی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرانی اور اسٹاک ایکچینج میں شدید مندی کا رحجان خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے ۔ جوکہ موڈیز کے تازہ ترین اعدادوشمارکے مستند ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری معاشی تباہی کی اصل ذمہ داری بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر عائد ہوتی ہے یا ہماری بدعنوان سیاسی مافیا پر؟؟؟ پاکستان کی سالمیت کے اصل دشمن ہمارے بدعنوان سیاست دان ہیں ۔ جنہیں صرف ذاتی سیاسی اور مالیاتی مفادات سے غرض ہے۔ اس کےلیے موجودہ سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالنا ہی کا فی ہے۔ جس ملی بھگت سے تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر کاغذاتِ نامزدگی سے صادق وامین کی شرط کو نکالا ۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ تمام سیاسی جماعتیں خائن، بدعنوان ، اور جرائم پیشہ عناصر کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے پر متفق ہیں ۔
جب یہ تبدیلیاں لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیں تو نگران وزیراعظم ناصر الملک اور ایاز صادق نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تو سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کا فیصلہ منسوخ کرکے امیدواران کوکاغذاتِ نامزدگی فارم سے نکالے جانے والی معلومات کو ایک بیان حلفی کی صورت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ اور یوں کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کا مرحلہ شروع ہوا۔ تو ہم نے دیکھا کہ 21،482 امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوگئے ۔ گویا یہ سب صادق وامین لوگ ہیں جن میں سے کوئی قومی اداروں کا نادہندہ نہیں اور کسی نے بینکوں سے قرضے معاف نہیں کرائے ، بدعنوانی نہیں کی ، کوئی جرم نہیں کیا، دہری شہریت نہیں چھپائی،واجب الادا ٹیکس ادا کیے،جھوٹ نہیں بولا ،جعل سازی نہیں کی ، ناکسی کی ڈگری جعلی نکلی اور اپنے اثاثے نہیں چھپائے۔
حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں سے545 اامیدواران نادہندہ ہیں اور کسی طور پر بھی صادق ا ورامین نہیں ہیں ۔ اس فہرست میں مراد سعید ، حنیف عباسی ، حامد سعید کاظمی ، فہمیدہ مرزا، آصف زرداری ، بلاول بھٹو زرداری ، عامر لیاقت حسین، خواجہ سعد رفیق ، عابد رضا چوہدری ، طارق رشید اور شریف فیملی شامل ہے۔ اثاثوں کی مالیت ظاہر کرنے میں جو ریکارڈ توڑ غلط بیانی ہو رہی ہے ، اس کی تفصیلات میڈیا پر رپورٹ ہوچکی ہیں ۔
گویا ہمارا انتخابی نظام امیدواران کی اسکرٹنی کرنے مکمل طور پر ناصرف ناکام رہا بلکہ بدعنوان سیاسی مافیا کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں عام انتخابات ایک لاحاصل سیاسی مشق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ہم کسی بہتری کی امید لگا کر صرف خود کو دھوکہ ہی دے رہے ہیں ۔ بدعنوان سیاسی مافیا ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوانوں میں لوٹنے والی ہے۔ اگلی حکومت میں پھر خائن ، بدعنوان اور مجرم صفت لوگ ہم پر مسلط ہونے والے ہیں ۔ تبدیلی کے دعوے داروں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر شدید اختلافات بنی گالہ دھرنے کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس نے پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کی بے چینی واضح کردی ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی میں تبدیلی سے لے کرٹکٹوں کی تقسیم تک جو کچھ ہوا ، وہ تبدیلی کے نعروں کا پول کھولنے کےلیے کافی ہے۔
ہم نے دیکھ لیا کہ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی جمع کرانے سے کوئی سودمند نتائج برآمد نہیں ہوسکے اور نہ ہی ہوں گے۔ جب سارا انتخابی عمل ہی مشکوک ہے تو کیسے بہتر انتخابی نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ موجودہ انتخابی نظام نے اب تو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے سارے چور دروازے کھول دئیے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگلی حکومت میں بھی بدعنوان سیاسی مافیا کا کلیدی کردار ہوگا اور یہ مافیا پاکستان کی معاشی تباہی کا محرک اور ذمہ دار ہے۔ تو پھر ہم کیسے یہ توقع کرلیں کہ اگلی حکومت پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کےلیے کوئی جامع لائحہ عمل اپنائے گی ، ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اگلی حکومت بھی اسی ڈگر پر چلے گی جس پر گزشتہ حکمران چل رہے تھے۔ تو پھر یہ سوال اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے کہ کون پاکستان کو معاشی بحران سے نکالے گا؟؟؟ نئے آبی ذخائر کب بنیں گے؟؟؟ پاکستان کو بنجر ہونے سے بچانے کےلیے کالا باغ ڈیم کون بنائے گا؟؟؟ توانائی کا بحران کیسے حل ہوگا؟؟؟ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ساکھ کون بحال کرے گا؟؟؟ کیا یہ خائن ،بدعنوان ، نادہندہ اور مجرم صفت لوگ یہ سب کریں گے؟؟؟ بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ آزمائے ہوئے لوگ ہیں جن کی مثال چلے ہوئے کارتوس جیسی ہی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کےلیے صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہی جاسکتی ہے اور کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں