The news is by your side.

پیپلزپارٹی، موروثی سیاست اوراحتساب

آج ملک میں کڑے احتسابی عمل کی داغ بیل ڈال دی ہے، اگر یہ سلسلہ کامیابی سے چلتا رہا تو یقیناً جمہوریت مضبوط ہوگی اورجمہوری ادارے مضبوط ہوں گے ۔ بدقسمتی سے سابقہ ادوار میں عوام کی غلط سمت میں راہنمائی کی گئ ۔ جس کے نتیجے میں شخصیت پرستی اور موروثیت کی جڑیں مضبوط ہوتی رہیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال’بھٹو ازم‘ ہے ۔ ایک پوری سیاسی جماعت کی عوامی سیاست کا محور فردِ واحد کی ذات تھی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی میں موروثیت غالب آگئ ۔ جب کسی جماعت کی سیاست میں موروثیت کو فیصلہ کن حثیت حاصل ہوجائے تو وہ جماعت کبھی اپنے اندر جمہوری روایات کو پروان نہیں چڑھا سکتی ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ خاندان کا ہر آنے والا وارث پارٹی قیادت کا اہل بھی ہو۔

پیپلزپارٹی میں کئی قابل اور سینئر سیاستدان ایک نوآموز بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اپنے سیاسی کیریئر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس پارٹی قیادت کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سابقہ چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے فرزند ارجمند ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دیا مگر پارٹی کے اندر کبھی جمہوری سوچ پروان نہیں چڑھنے دی گئی ۔ کارکنان کو کبھی یہ شعور نہیں دیا گیا کہ ایک سیاسی جماعت کسی واحد خاندان کی موروثی ملکیت نہیں ہوتی ۔ پارٹی کے اندر اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے تصور کا فقدان رہا۔ اگر پیپلزپارٹی حقیقی معنوں میں اپنے نظریات پر قائم رہتی جوکہ یہ تھے کہ ’اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ‘۔ مگر حالات نے ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی بجائے موروثیت کو اپنی سیاست بنالیا۔ پیپلزپارٹی کا منشور ’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘ تھا۔ پاکستان کے غریبوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک کو ووٹ اسی سوشلسٹ نعرے سے متاثر ہوکر دیا۔ بعد ازاں جب پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف زرداری کے ہاتھ لگی تو’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘ اور ’زندہ ہے بی بی زندہ ہے ‘ کا فلک شگاف نعرے پیپلزپارٹی کے انتخابی جلسوں کی رونق بنے۔

پھر ایسا کیا ہوا کہ ’وفاق کی علامت ‘ کہلانے والی پیپلزپارٹی بڑی حدتک سندھ کی دھرتی تک سمٹ کر رہ گئی؟؟؟ بھٹو اور بی بی کا جیالہ موروثی قیادت میں سابقہ قائدین کی خوبیاں نہ پاسکا جس کی وجہ سے 2013 کے عام انتخابات تک پیپلزپارٹی پنجاب میں ناقابلِ یقین حد تک سکڑ کررہ گئی ۔ موروثی سیاست کے عادی جیالے کو اپنی ہی پارٹی کے بہترین اور سینئر سیاست دان بھی متاثر نہ کرسکے ۔ پیپلزپارٹی اپنے منشور’روٹی، کپڑا اور مکان ‘سے عملاً منحرف ہوگئی۔ آج پیپلزپارٹی اندرون سندھ کے دیہی علاقوں کی جماعت بنتی جارہی ہے ، جہاں عوام کی اکثریت سیاسی شعور سے نابلد ہے۔

اندرونِ سندھ کے دیہی علاقوں میں ہمیشہ سے نا خواندگی اور غربت کی شرح زیادہ رہی ہے۔ اور شاید یہ ہی وہ واحد وجہ ہے کہ اندرونِ سندھ کے دہی عوام آج تک اپنی زبوں حالی کے ذمہ داران کا بہتر انداز میں تعین نہیں کرپائے ۔ سندھ حکومت کی سابقہ ٹرم میں خراب انتظامی کارکردگی اور مختلف حکومتی شعبوں میں بدعنوانی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ پیپلزپارٹی کے لیے آئندہ آنے والے دنوں میں قیادت کا بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے کیونکہ شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتاری جلد متوقع ہے۔

چنانچہ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ’کیا نا تجربہ کار موروثی گدی نشین بلاول بھٹو زرداری اکیلے پارٹی قیادت سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں ؟؟؟‘کہیں ایسا نہ ہو کہ پیپلزپارٹی کا موروثی مزاج ہی کشتی کو لے ڈوبے کیونکہ ایک موروثی سیاسی جماعت میں سینئر اور تجربہ کار سیاست دان بھی کبھی فیصلہ سازی میں متاثر کن کردار ادا نہیں کرپاتے اور ہمیشہ پس منظر میں ہی رہ جاتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں