انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل ہماری ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے ۔ صرف جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا کافی نہیں ہے، بلکہ مزید نئے صوبے بھی بننے چاہیں ۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں نئے صوبے بنانے میں غیرسنجیدہ طرزِعمل کامظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ مگریہی سیاسی جماعتیں صوبائی خودمختاری کےنام پرصوبائی عصبیت کو بھی فروغ دیتی رہی ہیں ۔
اٹھارہویں ترمیم کےذریعے صوبائی خودمختاری کےنام پروفاق کو کمزور کیاگیا ۔ صوبائی خودمختاری کی آڑمیں وفاق پاکستان کی سالمیت پروار کیاجارہاہے۔ اگرپیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن صوبائی خود مختاری میں اتنی سنجیدہ ہوتیں توانتظامی بنیادوں پرنئےصوبےضرور بن چکے ہوتے اور مقامی حکومتوں کا نظام مئوثر طور پر رائج کرکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے۔ مگر اس کے برعکس اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی مالیاتی اجارہ داری قائم کرنے سے وفاق کی سالمیت پرتباہ کن اثرات مرتب ہوئےہیں ۔
پہلانقصان یہ کہ وفاق کمزور ہوا ہے۔ ٹیکسیشن کے معاملات میں مرکز کے اختیارات محدود ہونے سے مرکز کا بیرونی قرضوں پر انحصار بڑھا ہے۔ انکم ٹیکس اور ایگریکلچرانکم ٹیکس اکٹھا کرنے اور خرچ کرنے کا اختیار مرکز کے پاس ہی ہونا چاہیے تاکہ مرکز مالی طورپر کمزور نہ ہو۔ دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو جو بے تحاشا مالی وسائل منتقل ہوئے ہیں، وہ سیاسی اشرافیہ کی جیبوں میں گئےہیں اور کرپشن بڑھی ہے۔
تیسرے یہ کہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں انتظامی عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے صوبوں کو منتقل ہونے سے مزید بدانتظامی پیدا ہوئی ہے۔ چوتھا یہ کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں نے اختیارات اور وسائل تو مرکز سے حاصل کرلیے مگر اسی اصول کے تحت اختیارات اور وسائل اضلاع ،تحصیل اور یونین کونسلوں کو نہیں ملے۔ اٹھارہویں ترمیم سے عملاً مالیاتی امور میں صوبائی اجارہ داری قائم تو ہوگئی مگر اس کے باوجود صوبوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ این ایف سی کی طرح پی ایف سی کا اجراء نہ ہوپانا بھی باعثِ تشویش ہے۔
بجاطور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مالیاتی امور میں صوبائی اجارہ داری سے عام آدمی کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟؟؟ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی کے نام پر صوبائی اجاراداری نقصان دہ عمل ہے۔ لہذٰا اٹھارہویں ترمیم کی حامی مرکز گریز قوتوں کاطرزعمل افسوسناک ہے۔اب جبکہ پی ٹی آئی حکومت اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے خلاف لانگ مارچ کی دھمکی کافی تعجب خیز ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کیسے صوبائی خود مختاری کی وکالت کےلیے خود کو اہل سمجھتی ہے؟؟؟ جبکہ پی پی پی اندرون سندھ غریب عوام کی حالات زار نہ بدل سکی ۔ کیا پی پی پی قیادت حکومت سندھ کی مالیاتی بے ضابطگیوں سے یکسر لاعلم ہے؟؟؟ کیا پی پی پی قیادت کو سندھ کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالتِ زار کا علم نہیں ؟؟؟ کیا پی پی پی قیادت کو سندھ کے سرکاری ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کی حالتِ زار کا علم نہیں ؟؟؟ کیا پی پی پی قیادت کو تھر کے قحط زردہ علاقے میں پھیلے ہوئے موت کے سائے کا علم نہیں ؟؟؟ یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر سندھ سرکار خاموش تماشائی بنی رہی ۔
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مالیاتی امور میں صوبائی اجارہ داری قائم ہونےکا فائدہ صرف سندھ سرکار نے اٹھایا مگر غریب آدمی کو کوئی ریلیف دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم کے باوجود سندھ سرکار عوام کوتعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں یکسر ناکام رہی ۔ تھر کے قحط زدہ علاقے میں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے اور غذائی قلت کے سبب اموات ہوتی رہیں مگر سندھ سرکار صورتحال پر قابو پانے میں تاحال ناکام نظر آتی ہے۔
پی پی پی قیادت کے پاس ایسا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہےجسے پیش کرکے یہ ثابت کیا جا سکے کہ پی پی پی نے اٹھارہویں ترمیم سے سندھ کے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کےاہداف حاصل کرلیےہیں ،اورپی ٹی آئی حکومت اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ کرکے سندھ کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جبکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے سندھ سرکار کے محکموں میں بدعنوانی بدستور برقرار رہی ۔ لہٰذا پی پی پی قیادت اپنی ناقص کارگردگی چھپانے کےلیے صوبائی خود مختاری کی آڑ لینے سے گریز کرے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرے۔