عورت معاشرے کا ایسا ستون ہے جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا۔ معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، شہر ہو یا دیہات، گھر ہو یا کاروبار ہر جگہ عورت ایک مضبوط ستون ہے۔ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، زیادتی اور منفی برتاؤ کا موضوع زیر بحث رہا ہے۔
عالمی یوم خواتین پر پاکستان کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کیا گیا جس کے بعد سے اب تک ایک مخصوص طبقہ اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ عورت مارچ میں شامل چند خواتین کے پلے کارڈ متنازعہ قرار دیئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ہماری تہذیب کے خلاف ہیں مگر ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس پلے کارڈ کے ذریعے ان خواتین نے دنیا کو بتانے کی کوشش کی۔ ہمارے معاشرے میں مرد جیسے چاہے بیٹھ جائے اس کو نظرانداز کردیا جاتا ہے لیکن ایک خاتون کے اٹھنے بیٹھنے پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔
عورت مارچ میں ایک لڑکی نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس میں تحریر تھا میری شرٹ نہیں آپ کی سوچ چھوٹی ہے۔ میں اس لڑکی سے متفق ہوں، شرٹ پہننے والی لڑکی کو تو چھوڑیں میں شلوار قمیض پہن کر کسی شاہراہ پر موٹر سائیکل چلا رہا ہوتا ہوں تو اکثر سامنے سے چلنے والی ہوا کی وجہ سے قمیض اڑتی ہے اور شلوار نظر آتی ہے اور میں فوری اپنی قمیض کو درست کرتا ہوں لیکن کوئی نوٹ نہیں کرتا لیکن اگر عورت جو اپنے شوہر یا بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھی ہو اور ہوا سے اس کی قمیض ہوا میں اڑے تو نا صرف اس کو سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں اور پھر اس عورت کو بدچلن سمجھا جاتا ہے اور یہاں تک کہ اس مرد کو بھی برا بھلا کہا جاتا ہے، ان مردوں کو جن الفاظ سے پکارا جاتا ہے وہ میں یہاں لکھ بھی نہیں سکتا۔
دنیا کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی 52 فیصد آبادی بھی خواتین پر مشتمل ہے۔ آج کل کے مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں کو کئی ممالک میں محدود مواقع میسر آتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ناکام ہوتی ہیں۔ نا جانے کیوں عورت کو معاشرتی طور پر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی خواتین کو معاشرے میں ترقی کے برابر مواقع میسر نہیں ہیں۔
صنعتی اداروں میں محنت کش خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بہت سے اداروں میں آج بھی خواتین کی تنخواہیں مرد ورکروں کے برابر نہیں ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین سے بھی سستی محنت لی جاتی ہے۔ فیکٹریوں اور دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اگر خواتین نے اپنے ساتھ ہونی والی زیادتیوں پر عورت مارچ نکالا ہے تو اس پر صرف تنقید برائے تنقید کے بجائے ہمیں مثبت پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہئے۔ میں خود ایسی خواتین کو جانتا ہوں جنہیں کچھ لڑکوں نے نامعلوم فیس بک آئی ڈیز بنا کر غلط تصاویر بھیجیں لیکن وہ اپنے گھر والوں کی بدنامی کی وجہ سے خاموش ہوگئیں۔ لڑکیاں ایسے واقعات کے بارے میں کسی کو بتانے سے بھی ڈرتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں اگر عورت کسی کو بتائے کہ کسی لڑکے نے اس کو غلط تصاویر بھیجی ہیں تو مرد ہی نہیں خواتین بھی کہتی ہیں کہ ضرور اس لڑکی میں کوئی برائی ہوگی، ہمیں تو کوئی ایسی تصویریں نہیں بھیجتا، مطلب کہ اس متاثرہ لڑکی کی مدد کے بجائے اس کو ہی برا سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں بے شمار تعلیم یافتہ خواتین جو مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں وہ گھروں میں بیکار بیٹھی ہیں کیونکہ آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کی ملازمت کو برا سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے والدین صرف اس ڈر سے اپنی بیٹیوں کو نوکری کرنے کی اجازت نہیں دیتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی کو کام پر بھیج رہے ہیں اور بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔
بہت سے والدین سمجھتے ہیں کہ دفاتر میں ان کی بچیوں کی عزت محفوظ نہیں کیونکہ نجی و سرکاری دفاتر میں خواتین کو جنسی طور پر حراساں کرنے کے بہت سے واقعات اکثر و بیشتر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ آئے روز اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، والدین تشویش کا اظہار تو کرتے ہیں مگر بے عزتی کے ڈر سے سامنے نہیں آتے، قانونی کاروائی کے بجائے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں اور جب تک والدین کی جانب سے خاموشی اختیار کی جائے گی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اس طرح کے واقعات میں کمی تب ممکن ہے جب متاثرہ خواتین یا والدین بلا خوف و خطر ایسے واقعات کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ پھر کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نا آئے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک مختلف حکومتوں کی جانب سے عورتوں کے لئے بے شمار قوانین بنائے گئے۔ قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔ سن 1976 میں انسداد جہیز کا قانون بنایا گیا تھا مگر آج تک یہ قانون عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ صرف یہی نہیں بلکہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کے خلاف بل منظور ہوا اور خواتین پر تیزاب پھینکنے اور جلانے والے کو 14 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا مقرر کی گئی اور پھر مختلف صوبائی اسمبلیوں نے بھی اسی طرح کے بل پاس کئے مگر واقعات میں کمی نا آ سکی کیونکہ بل منظور ہو کر قانون کا حصہ تو ضرور بن گئے مگر قانون پر عمل در آمد کوئی نا کروا سکا۔
کراچی کی ایک نوجوان بیٹی راحیلہ رحیم پر رشتے سے انکار پر تیزاب پھینکا گیا، سالوں گزر گئے مگر ملزمان کو سزائیں نا ہو سکیں، آج بھی راحیلہ اور اس جیسی بے شمار متاثرہ لڑکیاں اور خواتین انصاف کی طلبگار ہیں۔ عورت مارچ میں خواتین نے سینکڑوں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے مگر 4 سے 5 پلے کارڈ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور اصل مسائل کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔
لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ میں پوری کتاب لکھ سکتا ہوں مگر اس بلاگ میں اب مزید الفاظ کہ گنجائش نہیں رہی۔ میں عورت مارچ نکالنے والی ہر ایک خاتون کو سلام پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ ہر سال اسی طرح عورت مارچ نکال کر عورتوں کے مسائل دنیا کے سامنے لائیں گی۔