جب سے حزبِ اختلاف کا اتحاد ہوا ہے ، پی ٹی آئی حکومت نواز شریف کے معاملے میں دباؤ کاشکارہے ۔ کوٹ لکھپت جیل میں گزشتہ دنوں دو اہم سیاسی ملاقاتیں ہوئیں۔ کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نواز شریف ان دنوں علالت کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ اللہ انہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے مگر موصوف پاکستان کے ہسپتالوں کو علاج کے قابلِ اعتماد نہیں گردانتے اور لندن جانے پر بضد ہیں ۔ کیوں ؟؟؟ ایسا کون سا عارضہ نوازشریف کو لاحق ہوگیا ہے کہ جس کا علاج صرف لندن میں ہی ممکن ہے؟؟؟ ن لیگی میڈیا سیل کا یہ دعویٰ قطعی بے بنیاد ہے کہ نواز شریف کی صحت کا خیال نہیں رکھا جارہا مگر حزبِ اختلاف کا پروپیگنڈا اتنا شدید ہے کہ حکومت دباو ٔمیں آکر مراعات پر مراعات دے رہی ہے۔ جبکہ نوازشریف پہلے سے ہی وہ تمام رعایتیں حاصل کیے ہوئے ہیں جوکہ کسی عام پاکستانی قیدی کو نصیب نہیں ہوسکتیں ۔
یہاں پر حکومت کڑی تنقید کے زد میں آتی ہے کہ کیا کوئی میڈیکل این آر او کی راہ تو ہموار نہیں ہورہی ؟؟؟ اگر نہیں تو پھر ایسی رعایتیں صرف شریف برادران کے حصے میں ہی کیوں آرہی ہیں ؟؟؟ جیلوں میں قید باقی قیدی کیا پاکستانی نہیں ؟؟؟ اگرہیں تو پھر انہیں کیوں ایسی مراعات کا حقدار نہیں سمجھا جارہا ہے؟ کیا یہ ہے نئے پاکستان کا انوکھا لاڈلا احتساب ؟؟؟کہ جہاں بڑی مچھلیوں کو سیاسی دباو میں آکر وی آئی پی سہولیات دی جارہی ہیں تو آخر کس بنیاد پر ؟؟؟ ۔
یہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جس طرح نواز شریف کی صحت کا رونا رو رہی ہیں ۔ کیا کبھی شہداء ماڈل ٹاون کے لواحقین کو انصاف دلوانے کےلیے اتنا رونا کسی نے رویا ؟ نہیں !!! سانحہ ماڈل ٹاون کی ازسرنو تحقیقات کےلیے بننے والی جے آئی ٹی میں شریف برادران اور راناثناء اللہ سمیت کئی لیگی رہنماؤں کو طلبی کے نوٹس پر نوٹس جاری کررہی ہے۔ مگر وہاں یہ لوگ پیشی سے مسلسل کترا رہے ہیں ۔ کچھ لوگ اگر بادل نخواستہ پیش ہوہی گئے تو اس اعتراض کے ساتھ کہ نئی جے آئی ٹی غیرقانونی ہے کیونکہ دوبارہ تحقیقاتی جے آئی ٹی بنانا غیرقانونی ہے ۔ کیا ہی عجیب لوگ ہیں جو کہ اب سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کی قانونی حیثیت چیلنج کررہے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ملکی اعلیٰ عدلیہ کو قانون سکھایا جارہا ہے۔
اسی طرح میڈیا میں بھی کچھ لوگ آکر روزانہ کی بنیاد پر نواز شریف کی صحت کا رونا رورہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو سانحہ ماڈل ٹاون میں شہید ہونے والی تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد کا دکھ تو کبھی نظر نہیں آیا۔ نواز شریف کےلیے پریشان لوگوں کو کبھی پاکستان کی جیلوں قید ان غریبوں کا خیال تو کبھی نہیں آیا کہ جو سالوں مقدمات کے فیصلے کے انتظار میں جیل کے اندر پڑے ایڑیاں رگڑرگڑ کرمرگئے۔ ان مظلوموں کےلیے تو کوئی نہیں روتا مگر نواز شریف کےلیے ہرکوئی آہ وبکا کررہا ہے۔ یہ جو زرداریوں کو نواز شریف کا غم کھائے جارہاہے ،انہیں کبھی تھر کے قحط زدہ لوگوں کا تو کبھی دردمحسوس نہیں ہوا۔ یہ جو پکتیکا ، افغانستان میں افغان فورسز نے آٹھ غریب پاکستانی مزدوروں کو گولیوں سے بھون دیا ہے۔ ان کا دکھ تو کسی کو نہیں ہوا۔ حکومت پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بس ایک کمزور سامذمتی بیان جاری کردیا۔
ارے میں کہتی مذمت کافی نہیں ، مرمت ہونی چاہیے ان کی جو لوگ ذمہ دار ہیں۔ ایسی کمزور پالیسی اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یہ جو لوگ بلوچستان میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ۔ ایک اندازے کےمطابق سیلاب سےمتاثرہ علاقوں میں 23افراد کے جاں بحق جبکہ 68افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ 2600مکانات منہدم ہوئے مگر مجال ہے کسی سیاسی رہنمانے کسی دکھ درد کا اظہار کیا ہو یا حکومت نے کوئی خاص توجہ دی ہو۔
بس ہمیشہ کی طرح بحالی کاکام فوج کے کندھوں پر ڈال دو کیونکہ اس ملک میں تو ہرکام کا ٹھیکہ فوج نے لے رکھا ہے۔ غریب تھے سو مرگئے ، جوبچ نکلے بے گھر ہوگئے تو کیا ہوا سیاستدانوں کو اپنی کرپشن بچانی ہے۔ چاہے اس کے لیے ماضی میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے والوں سے ہی کیوں نہ ہاتھ ملانے پڑیں ۔ سب سے ضروری کام تو کسی طرح عمران خان کو ناکام کرنے کےلیے پارلیمنٹ کو مفلوج کرنے اور حکومت چلنے نہ دینے کےلیے گٹھ جوڑ کرنا ہے۔ اور اب تو جاتی امراء کا میڈیا سیل بھی ایکٹو ہوچکا ہے۔
عائشہ نور سیاسی تجزیہ کار ‘ بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں