آج کل صدارتی نظام کافی زیرِبحث ہے اور یہ موضوع بحث بنانے والوں کی اکثریت “نیا پاکستان ” بنانے کےلیےموجودہ نظام کےاندررہتے ہوئے “تبدیلی “لانےکےنعرے کی علمبردار ہے۔ آج آپ نے دیکھ لیاکہ آپ موجودہ نظام کے اندررہتے ہوئے تبدیلی لانےکی کوشش میں ناکام ہورہے ہیں ۔ آپ نے پہلےبھی غلط سمت کا انتخاب کیااور اب بھی آپ کی ڈائریکشن غلط ہے۔ آپ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صرف صدارتی نظام لانا کافی نہیں ہے ۔ ہمارا پورا نظام فرسودہ اور ڈلیور کرنےمیں ناکام ہوچکا ہے ۔
صدارتی نظام لانےسےصرف نظامِ حکومت ہی تبدیل ہوگا جوکہ ٹاٹ میں پیوندکاری کے مترادف ہوگا ۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کےلیے صدارتی نظام سب سےڈاکٹرطاہرالقادری نےتجویز کیاتھا ، جسےنظرانداز کردیاگیا ۔ مگرپوری قوم نے دیکھ لیا کہ ڈاکٹرطاہرالقادری ٹھیک کہتےتھے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری نےیہ بھی ٹھیک کہاتھا کہ “موجودہ نظام میں رہ کرسو الیکشن کرواکر دیکھ لیں , کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ” ۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کا ہمیشہ سےیہ موقف رہا ہے کہ موجودہ انتخابی نظام یعنی “الیکٹورل سسٹم ” بدلےبغیرنظام میں تبدیلی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ۔ توکیا محض صدارتی نظام لانےسے انتخابی نظام ازخود ٹھیک ہوجائے گا یا پھر صدارتی نظام کوئی غیرمرئی طاقت ہےجوکہ جادو کی چھڑی کی طرح سب ٹھیک کردےگا ۔ لہذٰا خودکوصدارتی نظام کی خوش فہمی کا شکار نہ بنائیں بلکہ بحثیت مجموعی فرسودہ نظام کو تبدیل کرنےکی ضرورت کوسمجھیں ۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ نظامِ عدل , قانونی ڈھانچہ اور نیب قوانین ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ ہمیں اپنا پولیس سسٹم ٹھیک کرنا اور تھانہ کلچر بدلنا ہوگا ۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بلدیاتی نظام کو مئوثر بنانےکےلیےاختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح کم ازکم 35نئےصوبوں کی تشکیل کی جائے ۔ چنانچہ اب جامع اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ سسٹم کو مکمل طور پر بدلاجاسکے ۔ اور اس کی ابتداء انتخابی نظام کو بدل کرہی رکھی جاسکتی ہے۔ نیب کا احتسابی عمل کمزوراورناقص ہے ۔ نیب کےاحتساب کے نتیجے میں ریکوری تاحال صفرہے۔ اگریہ ہی حال رہا تو لوٹی ہوئی دولت کون واپس لائےگا ؟ ۔
ہماری اقتصادی صورتحال قابلِ رحم ہوچکی ہے۔ ہم عالمی مالیاتی اداروں سے ان کی من چاہی شرائط پرقرض لےکر قرضوں پرسود کی قسطیں اداکررہےہیں ۔ یہ کوئی حل نہیں ہے کیونکہ آنےوالے سالوں میں بھی ہمیں قرضوں پرسود کی قسطیں ادا کرنےکےلیےمزید قرضےلینےپڑسکتےہیں۔ لہذٰا ہمارے لیےلوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی اشد ضروری ہے۔ اور موجودہ احتسابی عمل سے ریکوری کی امید کوئی امیدنہیں ۔ پی ٹی آئی حکومت میں مطلوبہ اصلاحات ہونا بہت مشکل ہے۔
پی ٹی آئی حکومت اپوزیشن جماعتوں کی مددکے بغیرقانون سازی نہیں کرسکتی ۔ توکیا اپوزیشن جماعتیں جوڈیشل اور لیگل ریفارمزکی حمایت کریں گی ؟ اس کا جواب یقیناً مجھے دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تمام تر صورتحال سب کےسامنےہے ۔ اگرپی ٹی آئی 2018کے عام انتخاب سے قبل انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کرتی اورحصولِ اقتدار کےلیےجلدبازی سےکام نہ لیتی توصورتحال آج یقیناً اس قدر مخدوش نہ ہوتی ۔ انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ منوائے بغیر انتخابی میدان میں اترنے کےنتائج کا آج پی ٹی آئی حکومت سامنا کررہی ہے ۔ اوراب پی ٹی آئی حکومت معاشی میدان میں بھی مسلسل غلط فیصلےکررہی ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ عالمی مالیاتی اداروں سےمزید قرض لینےاور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم غلط فیصلے ہیں ۔ آنےوالے سالوں میں اس کےسنگین اور منفی نتائج مرتب ہوں گے۔
ورلڈ بینک نے جنوبی ایشیا کی معاشی صورتحال کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے , وہی دیکھ لیجیئے ۔ اس میں پاکستان کو ٹیکس اصلاحات ،معاشی شرح نمو بڑھانے کےلیےسرمایہ کاری, پیداوار بڑھانے کےلیے ریگولیٹری ماحول کو بہتربنانے ، اور کاروباری لاگت میں کمی پر مشتمل معاشی اصلاحات کا مشورہ دیا گیا ہے۔ افسوس ہمارا حال ہے کہ ورلڈ بینک کو کہنا پڑتا ہے کہ ہم اب معاشی اصلاحات کرلیں ۔
میں سمجھتی ہوں کہ غیرملکی سرمایہ کاری کےبہترمواقع پیدا کرنےکےلیے صنعتی اصلاحات،انفراسٹرکچر میں بہتری اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ غذائی پیداوار بڑھانے اور کسانوں کےلیے بہترمواقع فراہم کرنے کےلیےزرعی اصلاحات کی جائیں ۔ تجارتی خسارے میں کمی لانےکےلیےاقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن لانا ہوگا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس چوری روکنےکےلے ٹیکس وصولی نظام میں اصلاحات حالات کا تقاضا ہیں۔