بچپن میں علی الصبح چڑیوں کی چہچہاہٹ سے آنکھ کھلتی، لڑکپن اور جوانی بھی چڑٰیوں کی نغموں کے مدھر دھنیں سنتے گزری اور پھر میں لاہور آگیا ۔ اسی دوران شہر میں جدید تعمیرات تیزی سے ہوئیں، فلائی اوورز بنے، سڑکیں تعمیر ہوئیں ، پلازے کھڑے ہوئے اور میٹرو بنی۔ لاہور میں نماز فجر کے بعد روزانہ چار کلومیٹر میرا معمول تھا۔ واک کے دوران درختوں پر چڑیاں، کبوتر، مینا اور رنگ برنگے پرندوں کے آشیانے دیکھتا ، ان کی بھانت بھانت کی آوازیں کانوں میں رس گھولتیں اور یوں میرے دن کا خوشگوار آغاز ہوجاتا۔
لاہور میں تعمیرات کی وجہ سے درخت کاٹے گئے، درخت کاٹنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ شہر سے پرندے غائب ہونا شروع ہوگئے، اب میرے فلیٹ کے باہر کبھی کبھی کوئی آوارہ کبوتر نظر آجاتا ہے، یا کسی پارک میں مینا پر نگاہ پڑ جاتی ہے۔ داتا کی نگری میں پرندوں کے غائب ہونے کے کئی عوامل ہیں ، اس حوالے سے ماہرین ماحولیات سے گفتگو کی۔ جن کا کہنا تھا کہ شہر میں منصوبہ بندی کے بغیر تعمیرات، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور پردیسی درختوں کی افزائش پرندوں کی نسل کشی کا باعث بن رہی ہے۔2013 میں برطانوی اخبار گارڈین میں ایک مضمون چھپا، مضمون نگار نے دعویٰ کیا کہ 1994 سے 2001کے دوران برطانیہ سے 70 فیصد چڑیاں ختم ہوچکی ہیں، مصنف نے پلازوں کی طرز پر رہائشی نظام کو اس کی وجہ قرار دیا۔لیکن اس کی ایک اور خطرناک وجہ جدید زراعت بھی ہے۔ جس میں کسان کیڑے مار ادویات کا استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ چڑیا کی بنیادی خوراک دانا ہوتا ہے اور وہ کھیتوں سے دانے حاصل کرتی ہے لیکن کیڑے مار ادویات کے اثرات کے باعث دانے اس کیلئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق لاہور میں سموگ اور آلودگی بھی پرندوں کی نسل کشی کا باعث بن رہی ہے۔ قارئین کیلئے یہ امر باعث حیرانگی ہوگا کہ لاہور میں 1965میں 240اقسام کے پرندے پائے جاتے تھے جبکہ 1992میں یہ تعداد کم ہوکر 101 اقسام تک آگئی جبکہ اس وقت لاہور میں بمشکل ایک درجن کے قریب پرندوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ چڑیا اور چنڈول(لارک)پھلدار درختوں پر اپنے آشیانے بناتے ہیں لیکن شہروں کے پھیلاؤ ، سڑکوں کی تعمیر کے باعث ان پرندوں کو آشیانہ بنانے کی جگہ نہیں ملتی جس کے باعث ان کی اکثریت شہروں سے ہجرت کر رہی ہے۔
حکومت پنجاب کے 194 علاقوں کے مطابق صوبے میں گھروں کی تعمیر میں 130 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 1700 مربع کلومیٹر زرعی رقبے پر گھر تعمیر کئے جا چکے ہیں۔زرعی زمین پر مکانات کی تعمیر کے باعث پاکستان زراعت کے میدان میں بھی متاثر ہورہا ہے ۔
نوے کی دہائی میں جب شہروں اور دیہاتوں میں کھلے مکانوں کا رواج تھا، اس دوران گھروں کے لان پرندوں کی آماجگا ہوا کرتے تھے، مائیں گھر کے بچا ہوا کھانا ، باجرہ، گندم اور دیگر اشیاء گھر کے لان میں پھیلا دیتیں تھیں، جہاں سے پرندے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔ پھر انسان جدید ہوگیا، جذبات سے عاری، اپنی نسلوں کے قاتل انسان نے اس جدیت کے آڑ میں اپنے ہی ماحول کو بگاڑںا شروع کردیا۔ یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس کے اثرات اس پر اور اُس کی نسل پر کس حد تک مرتب ہوں گے اپنے ماحول کو بگاڑنا شروع کردیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرندوں بالخصوص چڑیا کہ ختم ہونے سے ہمیں کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ ایک عام سے پرندہ ہی تو ہے، گوجرانوالہ کے پہلوانوں کے سوا اسے کوئی کھاتا بھی نہیں ہے۔ لیکن یاد رکھیں اگر چڑیا نہ رہی تو ہمیں کھانا بھی نہیں ملے گا، کیوں کہ چڑیا غذائی زنجیر کا بنیادی حصہ ہے۔ جس کی بقاء کیلئے اس کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح چڑیا پولینیشن کے عمل کا بھی حصہ ہے، جس کی بدولت پودے پھل دینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ یعنی چڑیا اور پرندے ختم ہوگئے تو ہمارے پھلوں میں پولینیشن کا عمل رک جائے گا اور اس عمل کے بغیر ہم خوراک حاصل کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ معدومی کا شکار ان پرندوں کو کیسے بچایا جاسکے، الارم کے عادی انسان کو چڑیوں کے میٹھے نغموں سے بیداری کی عادت کیسے تازہ کی جاسکتی ہے۔اس کیلئے چند اقدامات ضروری ہیں۔ چڑیوں کیلئے پانی اور خوراک کیلئے گھر کے آنگن میں انتظام کریں، آلودگی کم کرنے کیلئے اپنے حصے کا کردار ادا کریں ۔ موبائل فون کا استعمال کم سے کم کریں ، اگر ممکن ہو تو اینٹی ریڈیشن کوور استعمال کریں ، خود کو اور ماحول کو تابکاری اثرات سے محفوظ بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کسان ہیں تو کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے احتیاط کریں کیوں کہ ان کا زیادہ استعمال کئی حوالوں سے خطرناک ہوسکتا ہے۔گاڑیوں کے استعمال کے دوران اچھے معیار کا ایندھن استعمال کریں اور آلودگی کو زیادہ سے زیادہ کم کریں۔
یاد رکھیں! گھر کے آنگن میں بچوں کی قلقاریاں جہاں اہم ہیں وہیں منڈیر پر بیٹھی چڑیا کی چہچہاہٹ بھی ضروری ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر چھے میں سے ایک جانوروں کی نسل معدومی کا شکار ہے، جس کی معدومی حضرت انسان کیلئے بھی خطرے کا پیغام ہے۔ قدرت کے بنائے گئے نظام میں اگر انسان بگاڑ پیدا کررہا ہے تو یہی اس کیلئے مستقبل قریب میں خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ ایک عہد کریں ! چڑیوں کی چوں چوں اپنے شہر میں بحال رکھنے کیلئے اقدامات کریں گے۔ اگر اپنے لئے گھر بنانا لازمی ہے تو پرندوں کا ایک گھونسلا بھی ضروری بنائیں۔ لاہور کے استبول چوک میں پی ایچ اے کے سابق چیرمین افتخار احمد نے جانوروں کیلئے خوبصورت اور سستے گھونسلے بنوائے ہیں۔ ایسے ہی گھونسلے شہروں کے پارکس اور مختلف جگہوں پر بنائےجائیں۔ اور ہاں اس مون سون میں ایک درخت ضرور لگائیں۔ کیوں کہ ایک درخت 80بچوں کو آکسیجن فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! اگر آج ہم نے اپنے ماحول اور پرندوں کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اور وقت گزرنے کے بعد احساس بے مایا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ اب کیا پچھتائے ہووت۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔