The news is by your side.

کشمیری یوم الحاق کیوں مناتے ہیں؟

سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر مسلم کانفرنس کا غیر معمولی اجلاس جاری تھا۔اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس جیل میں تھے جبکہ اجلاس کی صدارت مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چودھری حمید اللہ نے کی۔ 19جولائی 1947ء کو منعقدہ جنرل کونسل کے اس غیر معمولی اجلاس میں سردار محمد ابراہیم خان، سید نزیر حسین شاہ،سردار محمد لطیف خان، سید حسن شاہ گردیزی، غلام رسول پنڈت،راجہ عبدالحمید خان، چوہدری نور حسین، خواجہ عبدالحمید خان، خواجہ غلام نبی، خواجہ یوسف صراف، عنایت اللہ اور کئی دوسرے افراد شریک تھے۔ اجلاس کے شرکاء 3جون 1947ء کو انگریز سرکار کی جانب سے تقسیم ہند کے مجوزہ منصوبے پر غور کر رہے تھے۔

اجلاس کے شرکاء نے تقسیم ہند کے تناظر میں ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل پر سیر حاصل گفتگو کی اور ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست کی غالب اکثریت ،اسکے جغرافیائی، اقتصادی،تہذیبی،سماجی اور مذہبی رشتے پاکستان کے ساتھ بنتے ہیں اور اسی وجہ سے ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کی دستور قانون ساز اسمبلی سے الحاق کیا جائے ورنہ ریاست کی عوام احتجاج کریں گے۔

اس سے قبل 13جولائی 1947 کو سینٹرل جیل میں ڈوگرہ افواج کے اندھا دھند فائرنگ کے باعث 22 نہتے کشمیری شہید جبکہ 100سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ریاست بھر کے کشمیریوں میں اضطراب کی سی کیفیت تھی۔کشمیری انگریز کی چالاکی، ڈوگرہ راج کی پالیسی اور ہندو بنئے کی چالوں سے آگاہ ہوچکے تھے۔ اس لئے کشمیری قیادت نے یہ فیصلہ کیا تھا۔1944ء میں قائداعظم محمد علی جناح جب سرینگر تشریف لے گئے تو اس وقت شیخ عبد اللہ اورچوہدری غلام عباس نے ان سے ملاقاتیں ۔

انہوں نے مسلم کانفر نس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اسوقت سرینگر کی آبادی بھی بہت کم تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک لاکھ کا اجتماع تھا جو کہ قائداعظم کا خطاب سننے آئے ہوئے تھے۔قائداعظم نے دو گھنٹے تقریر کی۔ اور کشمیریوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے سیاسی پلیٹ فارم آل جموں وکشمیر کے جھنڈے تلے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ بانی پاکستان نے چودھری غلام عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ اور دس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی ہمددریاں آپ کے ساتھ ہیں ۔

مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کی جانب سے 19جولائی1947کو منظور کی گئی یہ قرارداد کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس قرارداد نے کشمیریوں کو ایک نئی منزل کا راستہ دکھایا۔ اس قرارداد کی بدولت کشمیری اپنی جدوجہد کو ایک درست سمت دینے کے قابل ہوئے۔ اسی قرارداد نے انہیں پاکستان کی شہ رگ کا درجہ دلوایا۔ لیکن پھر تقسیم ہوگئی، ڈوگرہ راجہ نے پنڈت نہرو اور انگریز حکومت کی ساز باز سے کشمیرکا الحاق بھارت سے کرانے کا اعلان کردیا۔ اس الحاق نے گویا کشمیریوں کے سینے میں خنجر گھونپ دیا۔ جموں میں کشمیری مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ کئی دیہاتوں پر مشتمل کشمیری مسلمانوں کی آبادیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

اسی دوران کشمیریوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔ اس جدوجہد کے دوران گلگت اور آزاد کشمیر کے علاقے بھارتی تسلسط سے آزاد کرائے جبکہ1947 ہی میں بھارت نے پیرا شوٹ کے ذریعے اپنی فوج کشمیر میں اتار دی۔ اس دن کے بعد بھارتی جبر کا ایسا تسلط کشمیر کی دھرتی پر مسلط ہوا جو آج تک ختم نہیں ہوسکا۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا ، جہاں کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی سے طے کرنے کی قرارداد پاکستان اور بھارت دونوں نے تسلیم کی۔ آج بہتر سال گزرنے کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔

24اکتوبر 1947ء کو بھارتی تسلط سے آزاد کرائے گئے خطے کو آزاد کشمیر کا نام دیا گیا اور اس خطے میں ایک آزاد حکومت قائم کی گئی۔ اس وقت مسلم کانفرنسی قیادت نے فیصلہ کیا کہ وہ اس آزاد خطے کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنا کر جدوجہد آزاد کو تیز کردیں گے۔ مگر بدقسمتی سے آزاد ریاست کی اقتدار پر چند خاندان قبضہ کرکے بیٹھ گئے مگر انہوں نے جدوجہد آزادی کیلئے کوئی خاص کام سرانجام نہیں دیا۔وہ ریاست جو آزادی کا بیس کیمپ بننا تھی وہی ریاست اب اقتدار کا ریس کیمپ بن چکی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے نوجوان، بوڑھے اور بچے آج بھی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ وہ آج بھی الحاق پاکستان کی خاطر اپنے لہو کا خراج دے رہے ہیں۔وہاں سورج آج بھی آزادی کا پیغام لے کر طلوع اور خون کا نذرانہ لے کر غروب ہوتا ہے۔ آج بھی کشمیری مائیں بچوں کو لوری میں آزادی کے نغمے سناتی ہیں جبکہ آزاد کشمیر میں آج بھی تقرری ، تبادلہ اور ٹونٹی کی سیاست عروج پر ہے، جہاں آزادی کی جدوجہد کم اپنی وزرات کی فکر زیادہ ہے۔

ابھی گذشتہ ہفتے یوم شہدائے کشمیر منایا گیا آزاد کشمیر میں سوائے جماعت اسلامی کے کسی بھی سیاسی جماعت نے یوم شہدا پر تقریب منعقد نہیں کی جبکہ بھارتی تسلط میں کشمیریوں نے حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بڑے پیمانے پر تقاریب منعقد کیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں اطراف کی کشمیری قیادت الحاق پاکستان کے مشن کیلئے جدوجہد کرے اور تکمیل پاکستان کے خواب کو تعبیر دیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں