The news is by your side.

عیدِ قربان اورہندوستانی مسلمانوں کا المیہ

بھارتی ریاست اترپردیش کے گاوں جموئی میں مونگ پھلی کے تنازعے پر پنچایت جاری تھی کہ مدعی سونو کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا جبکہ مبینہ ملزم مایا پرکاش کو ڈنڈے مار مار کر قتل کردیا گیا۔اسی طرح ایک اور بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ کے ضلع کھار ساون میں مسلم نوجوان تبریز انصاری کو چوری کا جھوٹا الزام عائد کر کے کھمبے سے باندھ کر پیٹا گیا اور وہ اس تشدد سے جاں بحق ہوگیا۔ یہی نہیں تبریز انصاری کی منتوں اور چیخ و پکار پر مبنی ویڈیو بھی جاری کی گئی، عینی شاہدین کے مطابق ہجوم تبریز سے جے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے بلند کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ تبریز کے واقعے نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سنجیدہ طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

بھارت میں مذہبی اقلیتوں سے روا رکھا جانے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی کی بات ہے شمال مشرقی ریاست آسام کے ضلع پرپیٹا میں انتہا پسند بلوائیوں نے مسلم نوجوانوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا اور انہیں بھی جے شری رام ، بھارت ماتا کی جے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ نسبتا ًلبرل، اعتدال پسند اور کاروباری مرکز ممبئی میں ٹیکسی چلانے والے فیصل عثمان خان کے ساتھ بھی ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جب ان کی ٹیکسی سڑک کنارے خراب ہوگئی اور انہیں بھی یہی نعرے لگانے پرمجبور کیا گیا۔ کلکتہ میں بھی ایک مدرسے کے استاد حافظ محمد شاہ رخ کو بھی جے شری رام کا نعرہ بلند کرنے کا کہا گیا اور انہیں ایک گروہ نے ہراساں بھی کیا۔

عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق بھارت میں گذشتہ دہائی کے دوران مذہبی اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کیخلاف نفرت آمیز واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دس سالوں کے دوران ملک میں 297واقعات پیش آئے،جن میں 98 افراد کی اموات واقعہ ہوئیں جبکہ 722 افراد زخمی ہوئے۔

بھارت میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اعداد و شمار کے مطابق یہ واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں ،2012 سے2014 تک مجموعی طور پر 6 واقعات ہوئے۔مگر ان واقعات میں 2015 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گائے کی ذبح اور چوری کے الزامات کی بنیاد پر ہجوم کی جانب سے تشدد کے 121 واقعات ہوئے، اسی طرح 2009 سے 2019 کے درمیان 59 مسلمانوں کا قتل کیا گیا ، ان واقعات میں صرف 28 فیصد واقعات مویشی چوری اور گاو کشی کے الزامات سے متعلق تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے 66 واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی برسر اقتدار تھی جبکہ گانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں میں صرف 16 فیصد واقعات ہوئے ۔

بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے قتل عام اور مذہبی آزادی پر امریکی محکمہ خارجہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، محکمہ خارجہ نے ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں مذہبی بنیادوں پر تشد، قتل، فسادات، عدم مساوات اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی تفصیلات جاری کی گئیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال نومبر تک بھارت میں ہجومی تشدد کے 18 واقعات ہوئے جن میں 8 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔

بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے 2018 تک بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 9 فیصد اضافہ ہوا ۔ اسی طرح ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں انکشاف کیا ہے کہ مئی 2015 سے دسمبر 2018تک 44 افراد گئو رکشکھوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے جن میں سے 36 مسلمان تھے۔انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں اور اداروں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ان لٹھ برداروں کی پشت پناہی کر رہی ہے ، جس کے باعث وہ مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

بھارت میں موجود مسلمانوں سے ان معاملات پر تفصیلی گفتگو کی ، تمام مسلم کمیونٹی مودی سرکار کے اس رویہ سے سخت نالاں ہے ، حکومتی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ بھی پس پردہ ان تنظیموں کی حمایت کر رہے ہیں ۔عید الاضحیٰ کے آتے ہی مسلم اقلیتی علاقوں میں مسلم کمیونٹی پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جواہر لال یونیورسٹی کے پروفیسر دنیش موہن کے مطابق انتہا پسندوں کا یہ مذہب اقلیتوں مسلمانوں، عیسائیوں یہاں تک کہ دلت برداری کے ساتھ بھی امتیازی لوگ لبرل بھارت کی شبیہ کو بگاڑ رہا ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت اورریاستی سرکار سے ایسے جرائم کی بیخ کنی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

دوسری جانب بھارت میں موجود مسلمان منتخب ممبران اسمبلی سے سخت نالاں ہیں ۔ مقامی افراد کے مطابق اپنی ہی کمیونٹی کے ووٹوں سے منتخب ممبران انتخاب جیتنے کے بعد منہ تک نہیں دیکھتے وہ تو صرف ووٹ لینے کیلئے آتے ہیں ، انہیں قومی مفاد سے زیادہ اپنی پروموشن میں مصروف ہیں۔ مسلم کمیونٹی نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں تحفظ مہیا کرے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں