پرانے سرینگرکے علاقے خانقاہ معلیٰ کے شمس واری محلے میں آج 23 سالوں بعد رونق تھی، خوشی اور اداسی کی درمیان کیفیت میں سارا محلہ ڈوبا ہوا تھا، دہلی سے تین گاڑیاں ایک پرانے مکان کے سامنے آکر رکیں، گاڑی سے اترتے ہی ایک پچاس سالہ شخص گھر کی جانب جانے کی بجائے قبرستان کی طرف بھاگے جارہا تھا۔محلے کے تمام پیرو جوان اس شخص کے پیچھے بھاگ رہے تھے،نو وارد دو پرانی قبروں کے پاس پہنچ کر رک گیا، سسکیاں چیخوں میں بدل چکی تھیں۔ان چیخوں میں 23 سال کا درد ، تشدد اور ذہنی اذیت کا اثر بھی تھا، نووارد کے 23سال قبل ہونے والے واقعے کو یاد کر رہا تھا، جب انڈین سیکورٹی اداروں کی غلطی کے باعث اسے گرفتار کیا گیا، پھر انتظار کا ایک ایسا طویل دور شروع ہوا ، جو دو دہائیوں میں بھی ختم نہیں ہوا۔ اپنے ہی گھر میں اجنبی اس شخص کا نام محمد علی بٹ ہے، جسے 8 جون 1997 تو نیپال کے شہر کھٹمنڈو سے گرفتار کیا گیا۔
ankara escort
çankaya escort
eryaman escort
etlik escort
ankara ucuz escort
balgat escort
beşevler escort
çankaya escort
cebeci escort
çukurambar escort
demetevler escort
dikmen escort
eryaman escort
esat escort
etimesgut escort
etlik escort
gaziosmanpaşa escort
keçiören escort
kızılay escort
maltepe escort
mamak escort
otele gelen escort
rus escort
sincan escort
tunalı escort
türbanlı escort
ulus escort
yenimahalle escort
محمد علی کو 1996ء میں نئی دہلی کے علاقوں لاجپت نگر اور سروجنی نگر میں ہونے والے بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا، اس وقت وہ نیپال اور دہلی میں کشمیری دستکاریوں کے ایک کامیاب تاجر تھے جبکہ اس وقت ان کی عمر صرف 20 برس تھی، انہی کیساتھ سری نگر کے لطیف وازہ اور مرزا نثار حسین کو بھی گرفتار کیا۔نثار کی عمر 20 جبکہ لطیف وازہ کی عمر گرفتاری کے وقت 15 برس تھی۔یہ تینوں کشمیری دستکاریوں کے تاجر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
بھارتی کرمینل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے آگرہ کے رہائشی 33 سالہ رئیس بیگ جبکہ ڈوڈا کے 24 سالہ عبد الغنی کو بھی انہی الزامات کے تحت گرفتار کیا۔ گرفتاری کے وقت یہ پانچوں ایک دوسرے کے ناموں تک سے ناواقف تھے۔ وقت گزرتا گیا، ناکردہ جرم کی سزا بھگتنے والے معصوم نئی دہلی جیل، تہاڑ جیل، احمد آباد جیل اور گمنام ٹارچر سیلوں میں تشدد سہتے رہے۔ عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے ان کے اہل خانہ کی امیدیں ٹوٹ چکی تھیں ، انہیں ضمانت پر رہائی ملی نہ ہی کیس کا کوئی فیصلہ ہوا، نویں جماعت کے ننھے طالب علم 15 سالہ لطیف وازہ سے لے کر 33 سالہ رئیس بیگ تک سبھی اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے
۔ تینوں کشمیری تاجروں کے کاروبار تباہ ہوگئے، گھر وں کی جمع پونچی عدالتوں کے چکر کاٹنے میں صرف ہوگئی، رشتہ دار ، عزیز ، دوست اور پیارے فوت ہوگئے، پانچوں قیدی اپنے پیاروں کے جنازوں کو کندھا بھی نہیں دے پائے۔اس سارے عرصے میں جماعت اسلامی ہند نے ان بے گناہ قیدیوں کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا،انہیں وکیلوں کی فیسوں سے لے کر قانونی معاونت تک تمام خدمات فراہم کیں۔
جیل کی کال کوٹھریوں کی آہنی دیواریں اور پنچرے نما دیواروں کی بند درزوں کے درمیان سے آتی روشنی کی کرنیں انہیں روزانہ زندگی کا ایک پیغام دیتیں، اسی امید اور ایقان کیساتھ انہوں نے اپنی زندگیوں کے قیمتی 23 سال گن گن کر گزارے۔ پھر 23 سال کے صبر آزما انتظار کے بعد عدالت نے انہیں ’’ناکافی‘‘ ثبوتوں کی بنیاد پر ’’باعزت‘‘ بری کردیا۔جیل سے نکلتے ہی پانچوں قیدیوں کیلئے بھرپور کھانے کی دعوت کا اہتمام تھا، لیکن انہیں آزادی کی نعمت سے بڑھ کر کوئی بھی نعمت اچھی نہیں لگ رہی تھی، وہ 23 سالوں کے بعد آسمان اور بادل دیکھ رہے تھے، آسمان 23 سال پہلے ہی جیسا تھا، 23 سال پہلے بھی ایسے ہی ساون کی آمد آمد تھی، لیکن ان 23 سالوں میں ان کی زندگیاں بدل چکی تھیں، جس بچے کی ابھی مسیں نہیں بھیگیں تھی، آج اس بچے کے بالوں میں چاندی آگئی تھی ، 33 سالہ کڑیل نوجوان 23 سال بعد ادھیڑ عمر بزرگ بن چکا ہے۔
پانچوں مسلم نوجوانوں کی کہانیاں انتہائی دردناک ہیں ، محمد علی بٹ نے جیل کو اپنے تزکیہ نفس کیلئے استعمال کیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دو مرتبہ قرآن پاک تحریر کیا، ان کی یاد میں تڑپتی ماں کا ذہنی توازن خراب ہوگیا اور وہ سن 2000میں وفات پاگئیں، وہ اپنی آخری سانس میں بھی اپنے بیٹے کو یاد کر رہی تھیں،بٹ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کا سب سے دردناک لمحہ والدہ کی وفات کی خبر تھی، انہیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔
مرزا نثار حسین کو 15 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا، انہوں نے اپنی جوانی کی جیل کوٹھری میں گزاری ، کہتے ہیں انہیں اپنے 23 سالوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ دور وہ لگتا ہے جب انہیں تین ماہ تک کپڑے تبدیل نہیں کرنے دئیے گئے، اس کیس میں ان کے بھائی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جنہیں 14 سال بعد 2010 میں عدالت نے بری کردیا تھا۔ حسین نے اپنی جوانی کی بہاریں جیل میں گزار دیں لیکن اس سارے عرصے میں وہ کشمیری زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ نثار حسین کی رہائی پر علاقے میں جشن کا سماں تھا۔
بھارت کے عدالتی نظام کے ہاتھوں اپنی جوانی کے ماہ و سال لٹانے والے تیسرے نوجوان کا نام عبد الغنی ہے جو کہ جموں کے گاؤں بدھیروا کا رہائشی ہے، انہوں نے عدالت کو باربار بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں مگر کسی نے ان کی ایک بھی نہیں سنی۔ دوران قید یہ بھی اپنی والدہ کی ممتا سے محروم ہوگئے جو اپنے بیٹے کے انتظار میں اپنی زندگی لٹا بیٹھیں۔
جیل کی سلاخوں میں امیدوں کے سہارے تیئس برس بیتانے والے چوتھے نوجوان عبد الطیف وازہ ہیں،وہ کشمیری دستکاریوں کے ذاتی کاروبار کی نگرانی کیلئے نیپال میں موجود تھے کہ انہیں بھارتی سیکورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا۔ان کے گھر آنے پر سارے محلے میں جشن کا سا سماں تھا، پھولوں کی پتیاں اور مصنوعی ستارے ان پر برسائے گئے۔دوران قید ان کے والد فوت ہوگئے جبکہ ان کی والدہ نور جہاں بیٹے کے انتظار میں گھڑی کی سوئیاں تکتی رہیں۔ عبد الطیف کی رہائی پر ان کی والدہ سے رابطہ ہوا، کہتی ہیں کہ میرے بیڈ روم میں میرے چاند کی تصویر لگی ہوئی ہے، میں روزانہ رات کو اپنے بیٹے کی تصویر کو چومتی ہوں ، تصویر سے باتیں کرکے پوچھتی ہوں کہ میرے بیٹے تو سو گیا ہے ناں ؟؟ یہ بات کرتے ہوئے ان کی آواز سسکیوں میں تبدیل ہوگئی۔ عبد الطیف کا کہنا تھا کہ جیل کی بدبو دار دیواروں اور بوسیدہ چھتوں پر چوہوں کے دوڑنے اور لڑنے کی آوازیں انہیں سونے نہیں دیتی تھیں ، وہ خوف سے اپنے والد اور گھر والوں کو پکارتے۔
بھارتی سرکار نے جس کیس میں ان مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کیں ، اس کیس میں سیکورٹی فورسز نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا، نہ ہی ثبوت جمع کئے اور نہ ہی معاملے کی مکمل انکوائری کی۔22مئی 1996 کو جے پور آگرہ ہائی وے پر بس میں بم دھماکہ ہوا، 14 افراد ہلاک جبکہ 37 زخمی ہوئے،اس سے قبل لجپت نگر میں بھی ایک دھماکہ ہوا جس میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دونوں کیسز میں 17 افراد کو نامزد کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ان افراد کا تعلق جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے،مقدمے میں 7 افراد کو ابتدائی تحقیقات کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ ایک ملزم کو 2014 میں بری کیا گیا،بھارتی عدالت نے 6 افراد کو گذشتہ دنوں ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کیا،جن میں سے 5 گھروں کو روانہ کردئیے گئے جبکہ جاوید خان نامی شخص پر لجپت نگر کیس میں مزید تحقیق کی جائے گی، لجپت نگر کیس کے 3ملزمان کو بری کردیا گیا جن میں سے ایک کی جیل ہی میں موت واقع ہوگئی۔
بھارتی عدالتی نظام کی ستم ظریفی یہ ہے کہ 1996 اور 1997 میں پکڑے جانے والے ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز 15 سال بعد 2011 میں کیا گیا، پہلے پندرہ سال یہ ملزمان پولیس تشدد برداشت کرتے رہے۔ غلط الزام میں 23 سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے پانچوں مسلم نوجوانوں سے بات ہوئی، پانچوں عدالتی نظام سے نالاں تھے، وہ اپنی آزادی پر خوش تو ہیں مگر ان کی آنکھیں آج بھی اپنے بیتے کل کو تلاش کر رہی ہیں، جس میں ان کے سپنے تھے، جن میں اپنوں کی ملنے کی چاہت تھی، جن میں اپنا لڑکپن اور جوانی کے شوق تھے۔
مگر صرف ایک غلط مقدمے، عدالتی نظام کی بوسیدگی اور سیکورٹی فورسز کی ناکامی کی وجہ سے سب کچھ برباد ہوگیا۔ وہ بھارتی پارلیمنٹ، اعلیٰ عدلیہ اور سیکورٹی فورسز سے سوال پوچھتے ہیں کہ بے عزت بری ہونے کے بعد ان کے 23 سال کون لوٹا کردے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عدالتی نظام کے پاس ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر لب کشائی کریں گی۔ چاروں طرف ایک مہیب سی خاموش ہے۔ ایک انجانا خوف ہے کہ تمھیں انصاف کبھی نہیں مل سکتا ، کیوں کہ تم ہندوستانی مسلمان ہو۔ تمھیں ادھار زندگی نہیں دی جائے گی کیوں کہ لبرل بھارت کے چہرے پر انتہا پسند حکومت کی تختی لگ چکی ہے۔