اَب اِسے کیا کہا جائے ؟اور اِس کا ذمہ دار کون ہے؟ مگرسچ تو یہ ہے کہ جرمن کمپنی اے بی سی ڈی کی تحقیق کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ کینابس (چرس) استعمال کرنے والے شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیاہے یعنی کہ پچھلے کچھ عرصے میں شہرکراچی نے شعبہ ہائے زندگی کے کسی میدان میں کوئی پوزیشن لی ہو یا نہ لی ہو، مگر اَب ہمیں گردن تان کر اور اپناسینہ پھولا کر یہ یقین کرلینا چاہئے کہ بدبواور کچرا کنڈی میں بدلتا کراچی چرس پینے والا دنیا کا دوسرا بڑاشہر بھی بن گیاہے۔
اِس فہرست میں امریکا کا شہر نیویارک پہلے نمبر پر ہے جبکہ تحقیق کے مطابق کراچی میں مکمل غیر قانونی ہونے کے باوجود 42ٹن چرس استعمال کی جاتی ہے۔ شہرکراچی جو پہلے ہی کئی گھمبیر مسائل کی دلدل میں دھنس چکاہے،اِس کے باوجود بھی چرس استعمال کرنے والے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نیویارک جیسے شہر کے مقابلے میں کراچی شہر کا دوسرا نمبر حاصل کرنا انتہائی افسوس کی بات ہے۔ اِسے اِس درجے پر تو آنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ مگر اَب آگیاہے۔ تو پھر برداشت کریں۔ اور سب کو مل کر کوشش کرنی چاہئے کہ اِس کی یہ پوزیشن بہت جلد تبدیل ہو جائے ۔
بہر کیف، کراچی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر بہت سے مسائل اور برائیوں سے دوچارکرنے والے حکمران اور ادارے اپنی ذمہ داریوں سے منہ چرارہے ہیں،کراچی کوچرس کے استعمال میں دوسرے نمبر تک پہنچانے والے عمل سے لے کر شہرکراچی کو کچرے کا ڈھیرمیں تبدیل کرنے میں برسوں لگے ہیں۔
اِن دِنوں جیسا کراچی نظرآتاہے۔ اِسے یہاں تک پہنچانے میں کوئی ایک دو دن کا کام نہیں ہے۔آج کراچی کو اِس حال تک پہنچانے میں کراچی کی مقامی سیاسی اوروفاقی و صوبائی حکومتوں کے کرتادھرتاو ٔں نے ہی ثوابِ دارین سمجھ کر اپنا حصہ بڑھ چڑھ کرڈالاہے۔
تاہم اِس کے وسائل کو سب نے لوٹاہے، سب نے ہی اِس کے ٹیکس سے اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد حاصل کئے ہیں ، اور تو اورلمحہ فکریہ ، یہ بھی ہے کہ جو کبھی قومیت کے نام پر پاو ٔں میں دوپٹے کی چپل پہن کرشہرکے ٹھیکیدار بن کرآئے تھے،آج وہ کروڑوں کی ذاتی جائیدادوں کے مالک کیسے بن گئے؟ترقی و خوشحال کے لحاظ سے قریب آسمان کی بلندیوں کو چھوتے کراچی کو کچرے کے ڈھیر پر اِن ہی لوگوں نے ہی لا کھڑاکیا ہے۔ 40/35 سال سے کراچی کے جو لوگ قومیت کے نام پر ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے۔اہلیانِ کراچی سب سے پہلے تو اِن سے پوچھیں کہ اِنہوں نے اِس شہر کو دیا ہی کیا ہے ؟ا ُلٹااِنہوں نے اپنی سیاسی کھینچاتانی اور اقتدار و اختیار کی ذاتی لڑائیوں میں پڑ کر کچرے کے ڈھیر میں بدل کراِس شہرِ قائد کا بیڑاغرق ہی کیا ہے۔
کوئی پوچھے تو سندھ کی صوبائی حکومت نے شہر کے ترقیاتی بجٹ پر قبضہ کرکے اِسے روک کرشہرقائد کراچی کوسیاسی ٹھیکیداروں سے چھیننے کے چکر میں اِسے کیوں کچرے کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیاہے ؟ ۔
بات اصل میں یہ ہے کہ سیاسی چالبازوں اور مکاروں کے نزدیک کراچی کی ترقی تو محض بہانہ تھی۔ اِس میں صوبائی حکومت اور شہرکی سیاسی قیادت کو ترقیاتی بجٹ کو اپنے ذاتی بینک بیلنس بڑھانے اور اپنی عیاشیوں میں اڑاناتھا۔ صوبائی صاحب اقتدار کو لوٹ مار کی ایسی لت لگی کہ یہ شہر کراچی کے ترقیاتی منصوبوں اور انفرااسٹرکچرکی بہتری کو ہی بھول گئے۔
چنانچہ چند سالوں میں ہی شہرکراچی کچرے کے ڈھیر میں بدل گیا۔ اَب سیاسی بہروپیوں کا اِس پر بھی الزام تراشی کا گھمسان کا رن جاری ہے۔ عرض یہ کہ آج ذمہ داریوں سے کنی کٹاتے سیاسی بازی گروں اور ڈرامہ بازوں کی شہر کراچی میں مکھیوں کی افزائش سے زیادہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی بہتات ہے۔
لگتاہے کہ وفاق سے لے کر صوبائی ذمہ داروں اور شہرکراچی کی سیاسی کرتادھرتاو ٔں کے پیچ جیسی آئینی اور قانونی لڑائی جاری ہے یہ لڑائی کراچی کو پوری طرح کچراکنڈی میں بدل کر بھی کہیں جاکر رکنے والی نہیں ہے۔اِن کی ذمہ داریوں کی بٹوارے کی لڑائی میں کراچی شہر کچرے کے ڈھیر میں پوری طرح بدل کردنیا کا پہلے نمبر پر گندا ترین شہر کا درجہ بھی پالے گا۔خیر ،قوم کو بہتر ی کی اُمید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے ، اچھے دن بھی جلد آئیں گے بس صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا۔
مسائل اور بحرانوں میں دھنسی جس قوم کو 72سال سے یہی پتہ نہ ہو کہ اِس کا وجود اپنے اورزمانے والوں کے لئے کتنا کارآمد ہے، کسی کو اِس کی کسمپرسی اورحالاتِ ذار پر کبھی تراس نہ آیا ہو، مگر کبھی نہ کبھی خالقِ کائنات کو اِس قوم کو حالت بدلنے کے لئے تراس آہی جاتا ہے اور پھر وہ ہی ربِ کائنات اِس ہی قوم میں سے اِسے مسائل اور بحرانوں سے نکالنے کے لئے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ جیسے افراد کو ذمہ داری سونپ کر اِس کی تقدیر بدلنے کا خود ہی سامان پیدا کردیتا ہے ۔
الحمد اللہ، آج جب یہ برسوں بعد اپنی حیثیت کا لاشہ اُٹھائے اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔تو دنیا اِس کی صلاحیتوں اور امن و خوشحالی والی پالیسی کو تسلیم کرنے کو تیار کیوں نہیں ہے ؟یہ وہ سوال ہے۔ اَب جس کا جواب اِسے اپنے قومی لٹیروں ، قو می چوروں نواز و زرداری جیسے سابق نااہل حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے چیلے چانٹوں سے لینا لازمی ہوگیاہے۔
پاکستانی قوم سے اِس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ مذاق کیا ہے اور سچ کو چھپا یا ہے،اُنہوں نے اپنے ہم وطنوں کو غربت ، مفلسی اور لاچارگی کے دلدل میں جکڑے رکھا اور قوم کی مفلوک الحالی کا دنیا کو چہرہ دکھا کر قرضے لیئے ۔وہ خود توقرضوں سے بھرے قومی خزانے سے اللے تللے کرتے رہے ،مگردوسری طرف مُلک اور وقوم کو اربوں ، کھربوں کے بوجھ تلے دبا کر چلتے بنے ۔
مگر اَب وقت آگیاہے کہ قوم کو پچھلے قومی لٹیرے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کارناموں کے بارے میں سچ بتایا جائے، وہ سچ جِسے لٹیرے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے نصف صدی سے چھپارکھا ہے، جس سے قوم کی ترقی اور خوشحالی کے راستے بند ہوگئے۔مگر اَب ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ قومی لٹیرے اور قومی چور احتساب کے کڑے عمل سے گزر کر زمین سے دوہاتھ اُوپر اُٹھ کر ڈھائی ہاتھ نیچے جانے والے ہیں۔اِس کے بغیر کڑے احتساب کا عمل پورا بھی نہیں ہوگا اور آئندہ آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت کاسخت سبق بھی یہی ہوگا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ماضی میں میری قوم کو حکمرانوں نے اقوا م عالم سے قرضے لے کر مصنوعی خوبصورتی کا نقاب پہنا کر پیش کیا ۔ جِسے دیکھ کر ایسا لگتاتھا کہ جیسے غربت اور لاچارگی کی چکی میں پسی کوئی حسینہ مسائل اور بحرانوں کی آگ کے آسمان کی بلندیوں تک اُٹھتے شعلوں کے بیچو بیچ بیٹھ کر پلاسٹک سرجری پر سولہ سنگھار کررہی ہے، اور اسمارٹ دکھائی دینے کے خاطر بھوک و افلاس کی وجہ سے خالی پیٹ اور پچکے گالوں کے ساتھ غنودگی کے عالم میں محو رقص ہے۔ جِسے اپنے اردگرد کی اقوام کی ترقی و خوشحالی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔مگر اَب جب اِسے اپنے لٹیرے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی لوٹ مار اور قومی خزانے سے کی جانے والی عیاشیاں دِکھائی دے کر اِن کے کارنامے سمجھ آرہے ہیں۔تو یہ اِن کے شکنجے سے آزاد ہوکر اپنی خود ی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی ہے۔
بیشک، دنیا کو یہ سچ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستانی قوم دنیا کی ایک باشعور اور غیور قوم ہے،جہاں یہ ہر قسم کے اچھے بُرے حالات کا مقابلہ کرنا بھی جانتی ہے ،تو وہیں اقوام عالم کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے قلیل وسائل میں رہتے ہوئے۔ اِسے اپنی کامیابیوں کا لوہا منوانا بھی خوب آتاہے۔
بہرحال، قوم کی مفلسی اور فاقوں کی برسوں سے لال فیتوں سے بندھی بوسیدہ کالی الماری میں پڑی فائل کی گرد قوم خودچھاڑے گی۔ اور اپنے موجودہ حکمرانوں اور افواج پاک کے ساتھ مل کر بہت جلد بحرانوں اور 72سالوں کے مسائل سے نجات پا کر اپنا ترقی و خوشحالی کا حق ضرور حاصل کرے گی۔
محمد اعظم عظیم کالم نگار ہیں