آج ہمارے سیاست دانوں اور اشرافیہ کے ماتھے پر جتنا بڑا نشان نام نہاد جمہوری پاسداری کا ہے۔ اُس سے کہیں زیادہ بڑا اور گہرا سیاہ نشان اُن کے دل و دماغ پرقومی خزانہ لوٹ کھا نے اور عوام کو بے وقوف بنا کرآف شو رکمپنیا ں اور جعلی بینک اکاونٹس سے خود کو باعزت ظاہر کرکے حکمرانی کرنے اور آگے بڑھتے رہنے کا ہے۔
پچھلے سالوں کے مقابلے میں کچھ ماہ سے مُلک میں کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اتنی بڑھ گئی ہے کہ سارے دیس میں مہنگائی کانہ تھمنے والا طوفان آگیاہے ۔آج ڈالر کے ساتھ غربت کی اُونچی اڑان بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہر طرف مہنگائی منہ کھولے زبان نکالے قوم کو نگل لینے کو تیار کھڑی ہے۔اِسے بے لگام کرنے والے ہمارے یہی سیاست دان ہیں؛ جنہوں نے جمہوریت کی مالا تو جپی ہے۔ مگر مُلک سے حقیقی معنوں میں غربت کے خاتمے کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ قومی ادارے عوام کو بھوک و افلاس اور کسمپرسی کا تصدیق نامہ جاری کرکے دوست ممالک سے امداد وصول کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔اگر یہی ٹھیک ہوتے تو مُلک بھی درست جانب گامزن ہوتااور قرضوں کے بوجھ تلے دب کرپستی اور بھوک و افلاس کی دلدل میں غرق نہ ہوتا۔
ہماری سترسالہ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس عرصے میں مُلک پر زیادہ تر وردی والوں اور دوسول سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پلٹ پلٹ کرباریاں لگا حکمرانی قائم رہی ہے۔ سب نے اپنے لئے سوچا اور ٹائم پاس کیا اور چلتے بنے۔ مگر کبھی کسی نے مُلک سے غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے اپنے حصے کا کوئی بھی تعمیری اور مثبت کام اُس طرح سے نہیں کیا۔اُنہیں جس طرح کیا جانا چاہئے تھا۔آج جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مُلک میں ٹاپ ٹین مسائل میں غربت اور مہنگائی سرفہرست ہے۔
اگرچہ ایسا نہیں ہے۔مگر کچھ دیر کو فرض کرلیتے ہیں کہ حکمران جماعت سے حکومت چلائی نہیں جارہی ہے؛ تو اِس میں اپوزیشن کا بھی بڑا کردار ہے۔ اگر حزبِ اختلاف حکومتی کاموں میں رغنہ نہ ڈالے، تو سوفیصد اُمید ہے کہ حکومت بہتر طریقے سے اپنے کام انجام دے کر مُلک کو معاشی او ر اقتصادی بحرانوں سمیت دیگر مسائل سے نمٹ سکتی ہے ۔مگر اپوزیشن ایسا کیوں کرے گی؟اِس نے تو سوچ رکھا ہے کہ حکومت کے لئے مشکلات اور پریشانیاں پیدا کرنی ہے۔اپوزیشن کا حکمران جماعت سے رویہ نہ صرف غیر سیاسی بلکہ غیر مذہب بھی ہے۔ آج اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں پچھلے الیکشن میں اپنی شکست کی سُبکی حکومت کے خلاف گندی اور نازیبا زبان استعمال کرکے نکال رہی ہیں۔ اور حکومت کے کاموں میں ٹانگیں آڑاکر جمہوریت کا ٹیکہ ماتھے پر سجانے کی نوٹنکی کررہی ہیں۔ دراصل اِن کا ایسا کرنا جمہوریت اور جمہوری روایات کے بھی برخلاف ہے ۔
اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ اپوزیشن جماعتوں (پی ایم ایل ن اورپی پی پی) کے قائدین قومی خزانے سے لوٹ مار اور سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے احتساب کے قومی اداروں کی کڑی گرفت میں ہیں۔جو اپنی لوٹ مار کے باعث کڑے احتسابی عمل سے گزررہے ہیں۔جس سے اِن سب کے اوسان خطا ہیں ۔اِنہیں کچھ سمجھ نہیں آرہاہے کہ اِن کا کون سا عمل اِن کے لئے بہترہے اور کونسا اِنہیں پریشانیوں سے دوچار کرسکتاہے۔اِس صُورتِ حال میں آج کل احتساب سے بچنے او ر بچانے کے لئے دونوں کرپٹ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی اولادیں (جو نہ چاہتے ہوئے بھی ) ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نیا اتحاد بنا چکے ہیں ۔جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کرحکومت مخالف تحاریک چلائیں گی۔
غرض یہ کہ عید بعداپوزیشن کی مختلف جماعتوں کا اَچارکی طرح بنااتحادواقعی حکومت کی چٹنی بنا ڈالے گا.. !! حکومت مخالف اپوزیشن اتحادسڑکوں پر آنے کی تیاریوں میں یوں مصروفِ عمل ہے کہ جیسے یہ سڑکوں پر آکر حکومت کا تختہ اُلٹ ہی دے گا ۔دیکھنا یہ ہے کہ عید بعد شکست خوردہ اپوزیشن کی جماعتیں حکومت مخالف تحاریک سڑکوں پر چلا کر کیا ؟واقعی اُس طرح سے اپنا جمہوری حق اداکریں گیں۔ جس کا جمہوراور جمہوریت تقاضہ کرتے ہیں۔ یا یہ سب حکومت مخالف پروپیگنڈوں سے اپنی مردہ سیاست میں جان ڈالنے اور اپنے کرپٹ سربراہان کی کرپشن کے بعد سخت احتساب اورعبرت ناک انجام سے بچنے کے لئے ڈھونگ رچا کر مُلک میں انارکی پھیلا کر غیر جمہوری قوتوں کے لئے راہیں ہموار کررہے ہیں؟ اِس میں کچھ بھی ہے مگر اتنا ضرورواضح ہوچکاہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے معصومانہ مگر غیر جمہوری طرزِ عمل سے خودکو جمہوریت مخالف ثابت کرانے پر تلی ہوئی ہیں۔
ایک جانب جہاں اپوزیشن عیدبعد حکومت مخالف تحاریک چلانے کے لئے کمر کس چکی ہے۔ تو وہیں حکمران جماعت اِن سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنے تئیں تیار ہے۔جیسے گزشتہ دِنوں وزیراعظم عمران خان سے سندھ کے شہر اور مُلک کے تجارتی و معاشی حب کراچی سے تعلق رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد کی ملاقات ہوئی ہے۔ جس میں وزیراعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کو پی ٹی آئی کا سب اہم اتحادی قراردیتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ سندھ کے شہری علاقوں کی محرومیاں ختم کی جائیں گی ۔
اُنہوں نے اِس موقع پر اِ ن کی محرومیوں کا جلد ازجلد ہر ممکن ازالہ کیے جانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اور ساتھ ہی دُہراتے ہوئے کابینہ میں شامل ایم کیو ایم کے دونوں وزراءکی کارکردگی کو بھی سراہتے ہوئے کہاہے کہ وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم کی کارکردگی تمام وزراسے بہت بہتر ہے“ یہاںیہ ماننا پڑے گاکہ 71سالوں میں کوئی وزیراعظم ہے جو اپنی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے وزراءکی اِس طرح کھلے عام تعریف کررہاہے ۔ جس سے اتحادی جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
اِس سے انکار نہیں کہ وزیراعظم عمران خان سے قبل کسی بھی وزیراعظم نے کبھی بھی اتنی جرات اور ہمت نہیں پیداہوئی تھی کہ جو اپنے اتحادی وزراءکی یوں تعریف کرتا اور وہ بھی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزراءکی ۔ یقینا یہ کریڈٹ ایم کیوایم پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کو ہی جاتا ہے جو اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے تک مُلک میں حقیقی جمہوری تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے وطن عزیر کو متحدہ جیسی باشعور اور محب وطن سیاسی اتحادی جماعت کے ساتھ مل کر قرضوں اور معاشی بحرانوں سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی جانب لے جانا چاہتے ہیں جس کے لئے پاکستانی قوم ستر سالوں سے منتظرتھی۔