سینٹ لوئیس کی یہودی عبادت گاہ، جہاں قرآن اور تورات دونوں کی تعلیم دی جاتی ہے
یہودیت کی تاریخ سمیٹے فن پارہ عبادت گاہ میں آنے والوں کا استقبال کرتا ہے
اکتوبر کی ایک سرد صبح تھی، درجہ حرارت منفی ایک ڈگری سینٹی گریڈ تھا، امریکی شہر سینٹ لوئیس کی سڑکیں سنسان دکھائی دیتی تھیں۔ سرد ہوا مزاج پوچھ رہی تھی۔ سینٹرل ریفارم کانگریگیشن کی عمارت بھی سناٹے میں ڈوبی نظر آرہی تھی۔ گیارہ سے بارہ افراد کا قافلہ سردی سے ٹھٹھرتا، تیز تیز چلتا ہوا عمارت کی طرف بڑھ رہا تھا۔
سب سے آگے موجود شخص نے عمارت کے قریب پہنچ کر دروازہ کھولا اور تیزی سے اندر داخل ہوا، اس کے پیچھے تمام افراد تقریباً بھاگتے ہوئے اندر پہنچے۔ اندر نہایت خوشگوار حرارت تھی جس میں پہنچتے ہی سب نے سکون کا سانس لیا۔ دور کہیں مدھم سی موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ سامنے لکڑی کے فرش پر نیلے رنگ کا بڑا سا دائرہ بنا ہوا تھا جو بے شمار رنگوں سے بھرا ہوا تھا، قریب سے دیکھنے پر اس میں مختلف تصاویر نظر آتی تھیں۔
اندر داخل ہونے والے اس دائرے کے گرد پھیل گئے اور دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے۔ مختلف دیو مالائی کہانیاں سناتا یہ خوبصورت فن پارہ، پس منظر میں مدھم موسیقی اور دعائیہ کلمات، پاکستان سے آنے والے صحافیوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
اجنبی ملک، اجنبی شہر ہو، کڑاکے کی سردی ہو، مختلف سیمیناروں اور ملاقاتوں کا تھکا دینے والا شیڈول ہو، کھانے کو غیر ملکی کھانے اور ناشتے میں بلیک کافی ہو، تو گھر کا بستر اور دودھ پتی چائے سخت یاد آنے لگتی ہے۔ ستم بالائے ستم سینٹ لوئیس میں ہمارے میزبان ڈک وائز نے ہمیں بتایا کہ ہماری گاڑی خراب ہو چکی ہے اور ہمیں آج کا دن اپنی تمام مصروفیات پیدل یا پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے انجام دینی ہوں گی۔ امریکا اتنا نامہربان کبھی معلوم نہ ہوا تھا۔
یہ سینٹ لوئیس میں ہمارا تیسرا دن تھا اور ہم اس شہر کے سرد موسم سے سخت عاجز آچکے تھے۔ پاکستان بھر کے صحافیوں کے لیے منعقدہ اس فیلو شپ میں یہ ہمارا دوسرا پڑاؤ تھا اور دو دن بعد ہمیں واشنگٹن ڈی سی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس سے پہلے اوکلوہاما سے نکلنے سے ایک رات قبل ہمارے میزبان ہمیں ایک پاکستانی ریستوران میں ڈنر کروا چکے تھے جہاں کوئی ہفتے بھر بعد ہمیں دیسی کھانے نصیب ہوئے تھے، دودھ پتی چائے البتہ پھر بھی نہ ملی تھی۔ اب ہم سینٹ لوئیس کے رحم و کرم تھے۔
وائز کے بری خبر سنانے کے بعد ہم سب نے جیسے تیسے دلیہ اور کافی پی اور سرد موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے باہر نکل کھڑے ہوئے۔ آج ہماری منزل سینٹ لوئیس کی ایک سیناگاگ (یہودی عبادت گاہ) تھی جہاں کے ربی سے ملاقات بھی پروگرام کا حصہ تھی۔
یہ کم از کم میرا کسی یہودی عبادت گاہ کا پہلا دورہ تھا، ہم سب ہی امریکا کے دورے کے دوران راستے میں آتے مختلف کلیساؤں اور دیگر عبادت گاہوں کو باہر سے دیکھتے رہے تھے اور اب یہ پہلی بار تھا کہ ہم ایک سیناگاگ کے اندر تھے۔ ایک نئے تجربے کا جوش اور ایک قسم کی پراسرار سی عقیدت ہم سب ہی پر حاوی تھی۔
سیناگاگ کے لائبریری روم میں ہماری پہلی ملاقات گبرئیل کینیڈی سے ہوئی، گبرئیل گزشتہ 15 سال سے ریاست مزوری میں عقائد پر مبنی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں اور کئی کلیساؤں میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہیں۔
ان کا لیکچر امریکا میں سماجی بہتری اور انصاف کے لیے مختلف عقائد کے گروپس کی سرگرمیوں کے حوالے سے تھا۔ لیکچر کے بعد ہم باہر نکل کر پھر اس حصے میں تھے جہاں فرش پر بنا فن پارہ ہماری توجہ کا مرکز تھا۔
ہم سب ہی اس کے بارے میں جاننے کے لیے پرتجسس تھے، وائز نے بتایا کہ یہ فن پارہ ایک موضوع کے گرد گھومتا ہے اور اپنے اندر بہت سے معنی اور مقاصد رکھتا ہے، جب ہماری ربی سے ملاقات ہوگی تو وہی ہمیں اس کے بارے میں بتائیں گے۔ ہم تصاویر بنوا کر وہاں سے لوٹ آئے۔
اگلے دن ہم پھر اسی عمارت میں تھے جہاں صبح کے وقت ایڈ ریگی نامی سماجی کارکن سے ہماری ملاقات ہوئی، ریگی ایل جی بی ٹی کیو حقوق کے سرگرم کارکن تھے اور مختلف شہروں میں ان کمیونٹیز کے لیے کام کر رہے تھے۔
اس عمارت میں ہماری 3 اہم افراد سے ملاقاتیں ہوئیں جن سے نہایت بامقصد گفتگو رہی، لیکن حاصل سفر ربی رینڈی فلیشر سے ملاقات رہی۔ لمبے بالوں والے ربی رینڈی جدید خیالات کے حامل مذہبی پیشوا تھے، انہوں نے ہم سے ملتے ہی باآواز بلند شالوم کہا، اور پھر بتایا کہ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب وہی ہے جو سلام کا ہے، یعنی سلامتی۔ اسی وقت ہمارے درمیان سے اجنبیت کی دیوار گر گئی اور مذہب کا فرق مٹ گیا۔
ربی نہایت دوستانہ انداز میں ہمیں اس گرجا گھر کی تاریخ اور یہودیت کے بارے میں بتاتے رہے اور ہمارے سوالات کے جوابات دیتے رہے۔
سینٹرل ریفارم کانگریگیشن سنہ 1984 میں چند لبرل یہودیوں نے قائم کیا تھا، سیناگاگ کی پہلی ربی ایک خاتون سوزان ٹیلو تھیں۔ اپنے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد یہ ادارہ عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن گیا۔ حال ہی میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران یہ سیناگاگ غریب اور بے گھر افراد کے سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی بنا۔
ربی نے ہمیں بتایا کہ سینٹ لوئیس میں مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی ہے۔ ربی رینڈی فلیشر خاصے وقت تک سیناگاگ میں ایک مقامی امام مسجد کے ساتھ کلاسز منعقد کیا کرتے رہے جس میں آنے والے طلبا کو قرآن اور تورات دونوں کی تعلیم دی جاتی رہی۔ سیناگاگ کی پہلی خاتون ربی سوزان کے شوہر جب عبادات کے دوران موسیقی بجایا کرتے تو اس وقت ایک امام مسجد بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے اور دونوں مل کر موسیقی بجایا کرتے تھے۔
سیناگاگ میں، امریکا میں بسنے والے فلسطینی مسلمانوں کو بھی کئی بار مدعو کیا جاچکا ہے جہاں وہ اپنے تحفظات اور خدشات کے بارے میں مقامی لوگوں کو آگاہ کرچکے ہیں۔ یہی نہیں کرسمس کے موقع پر جب سیناگاگ کے ارکان، علاقے کے کم آمدنی والے افراد کے لیے تحفے تحائف پہنچاتے ہیں تاکہ وہ بھی کرسمس کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں، تب مقامی مسلمان آبادی کے رضا کار بھی ان کے ساتھ سرگرم عمل ہوتے ہیں۔
اس کے بعد ربی ہمیں اس مرکزی ہال میں لے گئے جہاں عبادات اور سیمینارز منعقد ہوتے تھے۔ ہال کے داخلی دروازے کے ساتھ امریکی جھنڈے کے ساتھ ایک اور جھنڈا تھا جس میں کرہ ارض کو دکھایا گیا تھا۔ ربی کے مطابق جھنڈا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب، نسل، اقوام اور ثقافتوں کے ماننے والوں کا مشترکہ گھر زمین ہے اور اس گھر کی حفاظت کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
ہال کے ایک کونے میں مختلف آلات موسیقی رکھے تھے جن میں پیانو، گٹار اور مختلف ڈرمز شامل تھے۔ بعض عبادت گاہوں میں دوران عبادت آرگن بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ربی کے مطابق عبادت کے دوران موسیقی بجانے کے قصے انجیل میں بھی موجود ہیں جو حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے کے ہیں۔
بعض ازاں ربی ہمیں اس شیلف کی طرف لے گئے جہاں تورات رکھی ہوئی تھی۔ شیلف کے اندر مختلف سائز کے تورات کے نسخے رکھے ہوئے تھے۔ کچھ نسخے لکڑی اور کپڑے کے جزدانوں میں رول کر کے رکھے ہوئے تھے۔ ایک بڑا نسخہ لکڑی کے فریم میں بند تھا۔ ربی نے عقیدت سے اس فریم کو کھولا اور اس میں موجود تورات کے بارے میں بتانے لگے۔
ربی نے بتایا کہ تورات کے کچھ نسخے دائیں سے بائیں پڑھے جاتے ہیں جبکہ کچھ اوپر سے نیچے کی طرف پڑھے جاتے ہیں۔ آخر الذکر تورات کا طریقہ کئی سو سال پہلے عراق کے یہودیوں نے طے کیا تھا اور اب یہ تورات عرب اور افریقی یہودیوں میں پڑھی جاتی ہے۔ تورات پڑھتے ہوئے ایک چھڑی بھی استعمال کی جاتی ہے جسے عبرانی زبان میں یاڈ کہا جاتا ہے، یاڈ کا مطلب ہاتھ ہے۔ اس چھڑی کے ایک سرے پر ہاتھ کی شبیہہ ہوتی ہے جس کی شہادت کی انگلی تورات کے الفاظ کی نشاندہی کرتی ہے۔
ربی نے اس نیلے فن پارے کے بارے میں بھی بتایا جس کے بارے میں جاننے کے لیے ہم سب ہی بے تاب تھے، یہ فن پارہ ایک بھارتی نژاد آرٹسٹ سیونا بینجمن نے بنایا تھا۔
اس فن پارے کے پہلے بیرونی دائرے میں ایسی علامات پینٹ کی گئی ہیں، جو تمام یہودی تعطیلات، مقدس دنوں، اور تہواروں کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس سے اگلا حلقہ بارہ برجوں کی علامات پر مبنی ہے۔ اگلے حلقے میں عبرانی مہینوں کی علامات ہیں۔ اس سے اگلے حلقے میں ان 12 قبائل کے نام ہیں جن کا ذکر انجیل میں کیا گیا ہے، یہ 12 قبائل حضرت یعقوب علیہ السلام کے 12 بیٹوں کے نام پر ہیں۔
مرکزی دائرے میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیٹی دینا کی علامتی تصویر ہے جو لبرل یہودیت کے مطابق اس خیال کو ظاہر کرتی ہے کہ اس تمام مذہبی سفر میں عورت یکساں ساتھی کی حیثیت رکھتی ہے۔
سیناگاگ کی لائبریری کے باہر کتابوں کے لیے ایک شیلف رکھا تھا، اس شیلف میں وہاں آنے والا کوئی بھی شخص کوئی کتاب چھوڑ کر جاسکتا تھا، اور کوئی بھی شخص وہاں رکھی کوئی کتاب لے سکتا تھا۔ اس وقت وہاں بنیادی عبرانی سیکھنے کی ایک کتاب رکھی تھی جو میں نے یادگار کے طور پر اپنے ساتھ رکھ لی۔
یہ دورہ ہمارے لیے کئی لحاظ سے یادگار رہا، اس ملاقات کا حاصل یہ احساس رہا کہ ہماری مذہبی تاریخ اور ورثہ مشترکہ ہے اور یہی ورثہ مذاہب و اقوام کی تفریق بھلا کر تمام انسانوں کو ایک رشتے میں باندھے رکھتا ہے۔ اس رشتے کو مضبوط بنانا ہی کرہ ارض پر امن اور سلامتی کی ضمانت ہے۔