The news is by your side.

مسکان کی تکبیر اور مودی کا خواب

“کرناٹک کی طالبہ مسکان ہجوم کو نظر انداز کرکے خاموشی سے کالج کی عمارت میں‌ داخل ہوسکتی تھی۔ حالات بہت خراب ہیں، اس لڑکی کو مصلحت سے کام لینا چاہیے تھا۔” سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو اور مسکان کے میڈیا کو انٹرویو کے بعد بھارت اور پاکستان میں جہاں اس طالبہ کی حمایت اور ہجوم کو مطعون کرنے کا سلسلہ جاری تھا، وہیں‌ یہ بحث بھی کی جارہی تھی کہ معاملہ فہمی اور مصلحت اندیشی کیا ہوتی ہے۔

اس واقعے کی ویڈیو آپ نے بھی دیکھی ہوگی جب ایک باحجاب طالبہ اپنی اسکوٹی کالج کے احاطے میں کھڑی کرکے عمارت کی طرف بڑھتی ہے تو لڑکوں کا ہجوم ان کی طرف آتا ہے، وہ زعفرانی رنگ کے پٹکے گلے میں‌ ڈالے ہوئے ہیں اور اسے ہاتھوں میں‌ لہرا رہے ہیں، وہ اس لڑکی کے قریب آتے ہیں اور ’جے شری رام‘ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ تب، وہ پلٹ کر اپنا ایک ہاتھ فضا میں بلند کرتی ہے اور ’اللہ اکبر‘ کی صدا لگاتی ہے۔

یہ یقینا اس کا سوچا سمجھا جواب نہیں تھا۔ یہ ردعمل تھا۔ مذہبی شناخت اور اپنی پہچان کو کچلنے اور مسلسل اسی بنیاد پر نشانہ بنائے جانے پر۔ جس کے آگےمصلحت اور احتیاط ظالم کو لامحدود اختیار اور خود پر مسلط ہوجانے کا موقع دینے کے مترادف معلوم ہوتی ہے۔
مسکان کا جواب وہ تھا جس نے دنیا کو بتایا کہ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاپ پر پابندی بھارت کی ثقافتی پہچان اور کسی درس گاہ کے تدریسی ماحول کی بہتری کے لیے نہیں عائد کی گئی، بلکہ یہ مسلمانوں‌ کے مذہبی تشخص کو مسخ کرتے ہوئے ہندوتوا کو فروغ دینے کی ایک کڑی ہے۔ یہ بالخصوص مودی کے دور میں‌ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ہراساں کرنے کے جواب میں فوری اور بے ارادہ ردعمل ضرور تھا، لیکن یہ ایسے کئی واقعات کا بھرپور جواب ہے جو ہندوستان کے طول و عرض میں‌ تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔

مسکان کو شیرنی کے نام سے پکارا گیا۔ ایک بلند حوصلہ اور بہادر لڑکی جو ہجوم کے آگے ڈٹ گئی۔ اس لڑکی نے ان کروڑوں بھارتی ملسمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ اپنی مذہبی شناخت کو بھی اوّلیت دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں‌ دانش وَر اور سنجیدہ و باشعور افراد بھارت میں عدم برداشت کو مذہب اور کلچر میں تطہیر کے نام پر فروغ دینے کی کوشش تصور کرتے ہیں جس میں بھارتی سماج کی مختلف جہات خطرے سے دوچار ہیں اور اس کی ذمہ دار مودی سرکار ہے۔

یہ تو صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت کی ریاست کرناٹک میں اگلے انتخابات سے قبل ہندوتوا کے نعرے کو ہوا دی جارہی ہے او بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اسے اپنی انتخابی فتح کا زینہ بنانا چاہتی ہے، لیکن بات اتنی سیدھی نہیں‌ ہے۔ مرکز اور ریاستوں میں سیاسی غلبہ پانے والے مودی قوم پرستوں اور انتہا پسندوں‌ کی خواہش پر بھارت کی سیکولر شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

حکم راں جماعت اور ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس جیسے دیگر سیاسی اور مذہبی انتہا پسند گروہ کا ہندوتوا کا نظریہ یا تصوّر عوام میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے یا نہیں‌، مگر اقلیتوں میں‌ خوف و ہراس پھیلا کر سماج کو ضرور نقصان پہنچا رہا ہے۔

کرناٹک میں بی جے پی انتخابی بساط پر جیت اور اپنے مقاصد کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا چکی۔ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو کبھی میسور کے حکم راں ٹیپو سلطان(شہید) ایک بہادر اور محبِ وطن ہی نہیں بھارت میں مذہبی رواداری کے علم بردار بھی مشہور تھے، لیکن پھر کرناٹک میں مذہبی تفریق کو ہوا دیتے ہوئے تاریخ کو بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بی جے پی کی حکومت میں دائیں بازو کے مؤرخین نے اس مجاہدِ آزادی کو ہندوؤں کے قاتل کے طور پر پیش کیا جب کہ کانگریس حکومت نے انھیں کرناٹک کا ہیرو قرار دیا تھا۔

اس وقت کرناٹک ہی نہیں ملک کے مختلف شہروں اور دارُ‌الحکومت دلّی میں‌ بھی انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جن پر مرکزی حکومت خاموش ہے۔ ادھر بی جے پی کرناٹک میں 2023ء کے انتخابی معرکے سے قبل ہندو مسلم تنازعات کو ابھارنا ضروری سمجھتی ہے۔ ملک میں‌ ہندو جتھوں کے مسلمانوں پر بلا اشتعال حملے اور ان پر جھوٹے الزامات میں مار پیٹ اور قتل کر دینے کے واقعات کی روک تھام تو کیا ان کی مذمت کے لیے بھی مودی سرکار تیّار نہیں‌ ہے۔ سر پر ٹوپی پہننے، کبھی گائے کا گوشت کھانے، تو کبھی ہندوؤں کو مہنگی سبزی فروخت کرنے کے بہانے مسلمانوں‌ کو خوف زدہ کیا جارہا ہے۔

یہ بات قابلِ‌ غور ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ یا حکام کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں‌ دیا جاتا اور ایسے واقعات کی مذمت تک نہیں کی جاتی جس سے موجودہ بھارتی حکومت کے مذہبی اقلیتوں کے خلاف عزائم اور ریاست کی جانب سے انھیں‌ تحفظ دینے میں‌ ناکامی ثابت ہوتی ہے۔

کرناٹک میں‌ مسلمان طالبہ مسکان کو ہراساں کرنے کے واقعے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہندو قوم پرست مسلمانوں سے جبراً ان کی مذہبی شناخت چھین لینا چاہتے ہیں اور ان عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے جس کا جواب مسکان نے دیا ہے۔

آج اگر امبیڈکر کی بات کی جائے تو بھارتی آئین کے یہ معمار ہندوستان میں تمام طبقات کی سیاسی نمائندگی اور ریاستی سطح پر ہر لسانی اور مذہبی گروہ کے حقوق کے بڑے پرچارک تھے، جن کا نام بھارت کی تاریخ کا حصّہ ہے۔ امبیڈکر سمجھتے تھے کہ تعداد کی بنیاد پر اکثریت کو ملک کی اقلیت پر اپنی رائے تھوپنے کا حق نہیں‌ دیا جاسکتا اور اکثریت (ہندوؤں) کو یہ نہیں‌ سوچنا چاہیے کہ انہی پر مشتمل حکومت ہندوستان کی اصل پہچان ہے یا ان کے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہے، مگر بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے دورِ اقتدار میں‌ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حکومت میں شراکت کم کرتے ہوئے سماج میں‌ بھی ان کی حیثیت گھٹانے کی کوششیں کرتی نظر آرہی ہے۔ اس کا براہِ راست اثر اُس معاشرے پر پڑ رہا ہے جو اپنے لسانی اور مذہبی تنوع کے ساتھ رنگا رنگ ثقافت کے لیے نازاں رہا ہے۔

بھارت میں مسلمان ہی نہیں‌ عیسائی بھی بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں اور قوم پرست گروہوں‌ کی وجہ سے پریشان ہیں۔ عیسائیوں کو شکایت ہے کہ ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں‌ رکاوٹ ڈالی جارہی اور گرجا گھروں پر حملے سبھی کے سامنے ہیں۔ بھارت میں جرائم کا ریکارڈ مرتب کرنے والے قومی دفتر نے 2020ء میں‌ جو رپورٹ جاری کی تھی، اس کے مطابق ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کے 857 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یہ تعداد 2019ء میں 438 اور اس سے پچھلے برس 512 تھی۔ واضح رہے کہ 2020ء میں اقلیتی برادری کی جانب سے کئی واقعات جان جانے کے خوف سے رپورٹ نہیں‌ کروائے گئے۔

آج اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جان و مال اور عزّت و آبرو ہی نہیں بھارت کی تہذیب اور ثقافت سب خطرے میں ہے۔ وہاں مسلمان اور مسیحی ہی نہیں‌ دلَت اور دوسرے طبقاتی گروہ بھی مسلسل خوف اور دباؤ کا شکار ہیں جب کہ حکومت اقلیت کی فلاح و بہبود اور ان کو مکمل تحفظ کا ڈھول پیٹ رہی ہے۔ سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کو مسلسل مذہبی، معاشی اور ثقافتی طور پر قومی دھارے سے الگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔

بھارت کو ایک ‘مستحکم اور بڑی جمہوریت‘ کے طور پر پیش کرنے والے تحریری اور سب سے بڑے آئین کو بھی وزیرِاعظم مودی کے دور میں‌ ازسرِ نو لکھنے کی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں۔ انتہا پسند اور قوم پرست اس آئین کی ہمہ گیری اور جوہر یعنی سیکولر ازم، ثقافتی، مذہبی اور لسانی تنوع کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں‌ ہیں۔ ہندو مسلم فسادات اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ افسوس ناک واقعات کے بعد کہا جارہا ہے کہ انتہا پسند قوتیں بھارت کو ہندو اسٹیٹ قرار دلوانے کی کوشش کررہی ہیں اور مودی سرکار اُن آئینی شقوں کو کم زور کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ملک کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی ضامن ہیں۔

دنیا جاننا چاہتی ہے کہ اس غیر منطقی اور نسلی امتیاز پر مبنی سوچ کو فروغ دے کر کیا مودی سرکار ملک میں اکثریت کی مذہبی مطلق العنانی کو قائم کرنے جارہے ہیں اور کیا یہ ایک کثیر ثقافتی اور ہمہ رنگ معاشرے میں قابلِ‌ قبول ہو گا؟

بھارت کے مسلمانوں‌ کو کرناٹک کی مسکان جیسا حوصلہ اور ہمّت دکھانی ہوگی اور انڈیا میں‌ اپنے مذہبی حق، لسانی اور ثقافتی شناخت کے لیے قانونی جنگ لڑنے کے لیے اب آگے بڑھنا ہوگا، جو ان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں