The news is by your side.

ویلنٹائن ڈے: چاکلیٹ کا پیکٹ اور محبوبائیں (فکاہیہ)

بابو بھائی کوئی کام بلاوجہ نہیں کرتے۔ اب یہی دیکھیے کہ انھوں نے محلّے کی ایک خوش شکل خاتون سے دوسری شادی کی تو وجہ بتائی، ”بے چاری بیوہ کو سہارے کی ضرورت تھی۔ “ یہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ خود لاٹھی کا سہارا لیے ہوئے تھے۔

جب پوچھا گیا، ”گلی کی تین بڑی عمر اور بُری شکل کی بیواﺅں میں سے کسی کو کیوں نہ اپنا لیا؟“ تو سبب بتایا،”بھیا! ہم ضرور یہ نیکی کرتے، لیکن ناقص فقہی معلومات سے دھوکا کھا گئے۔ ان تینوں کے اور ہمارے گھر میں ایک ہی باڑے کا دودھ آتا تھا، ہم سمجھے یہ ہماری دودھ شریک بہنیں ہیں۔ اس اصطلاح کا اصل مطلب ہم پر بعد میں کُھلا۔“

ویسے ان کی گلی کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جن محترمہ کو وہ نکاح میں لائے ہیں ان کے شوہر شوگر کے مریض تھے، اور بابو بھائی کو متعدد مرتبہ مرحوم کو ان کی من پسند مٹھائیاں ”اور لیجیے، بس ایک اور…“ کہہ کر کھلاتے دیکھا گیا۔

بابو بھائی وجہ اور جواز کے معاملے میں اتنے حسّاس ہیں کہ پہلی شادی کا کارڈ بانٹتے ہوئے شرما شرما کر بتاتے جاتے، ”ہُوا یوں کہ ایک انعامات بانٹنے والے ٹی وی پروگرام میں چلے گئے، وہاں ہمیں انعام میں دو جُھمکے مل گئے، سوچا ہم ان کا کیا کریں گے، ان کے لیے کہیں سے دو کان لے آئیں، اسی لیے شادی کر لی۔“

کل بابو بھائی ہمیں ملے، ہاتھ میں چاکلیٹ کا پیکٹ تھا۔ ہم نے پوچھا،”آپ تو چاکلیٹ چکھتے تک نہیں، پھر یہ پیکٹ!“ بولے، ”یہی تو مسئلہ ہے، کسی نے تحفے میں دے دیا۔ اب سوچ رہا ہوں کیا کروں۔“ پھر ذرا شرما کر کہنے لگے، ” کسی کو بلاوجہ چاکلیٹ دینا تو اچھا نہیں لگتا نا۔“ ہم ان کی شرم کے پیچھے چھپی بے شرمی تاڑ گئے۔ عرض کیا،”تو وجہ ڈھونڈنے میں کتنی دیر لگتی ہے، کسی سے محبّت کرلیں، محبت کا دن آنے ہی والا ہے، گل دستے کے ساتھ پیش کردیجیے گا۔“ مزید خبیثانہ شرماہٹ کے ساتھ ہنسے اور بولے،”تم بھی نا… لیکن کیا کریں، اس کے سوا کوئی حل بھی تو نہیں، اب تم نے مشورہ دیا ہے تو تم ہی بتاﺅ کہ کیسی محبوبہ ڈھونڈیں۔“

ہم جانتے ہیں کہ بابو بھائی کو سیاست سے بہت دل چسپی ہے، اتنی کہ وہ جانتے ہیں، ملک میں ایک جماعت پاک سرزمین پارٹی بھی ہے، اور وہ اس سے بھی واقف ہیں کہ شیخ رشید کی اپنی ایک عدد سیاسی جماعت ہے۔ ہم نے سوچا کہ انھیں ان کے ذوق وشوق کے اعتبار سے محبوباﺅں کی اقسام سے متعارف کرائیں۔ سو بتانے لگے،”دیکھیے بابو بھائی! ہر محبوبہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے مزاج کی ہوتی ہے۔ ہم ہر ایک کا مزاج آپ کو بتائے دیتے ہیں، آگے جو آپ کی مرضی۔ اب سنیے:

تحریکِ انصاف سی محبوبہ:
یہ ابتدا میں صاف چلتی شفاف چلتی ہے، لیکن پھر رنگ بدلتی ہے۔ یہ زندگی میں ناچتی گاتی آتی ہے۔ لگتا ہے اس کے آنے سے زندگی میں بدلاﺅ آجائے گا، مگر پتا چلتا ہے کہ قسمت نے بس کوئی ”بدلہ“ لیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ”دھول دھپا اس سراپا ناز“ کا شیوہ ہے، اور جلی کٹی سنانا اس کا مشغلہ۔ اسے ایک بار اپنا لیا تو چھوڑ نہیں سکتے، کیوں کہ ساتھ چھوٹنے پر یہ خطرناک ہوجاتی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رنگ کی محبوبہ:
یہ بڑی نازک مزاج ہوتی ہے۔ ذرا مشکل پڑی اور یہ بیمار پڑی۔ اس کے پڑنے کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ پتا نہیں ہوتا کہ کب لڑ پڑی، کب پاﺅں پڑی۔ اس سے دامن چھڑانا بہت آسان ہے، محبوب ساتھ چھوڑ دے تو یہ بس روتی رہتی اور کہتی جاتی ہے، جانو! زندگی سے ”کیوں نکالا“ لڑنے کے لیے کبھی نہیں نکلتی۔ بعض اوقات ”نظام“ کی باغی اور انقلابی لگتی ہے، لیکن ”نظام“ پکارے ”میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں“ تو یہ انقلابی، لال گلابی ہوکر ”وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا“ کہتی نظام کی طرف ہاتھ بڑھا دیتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی جیسی محبوبہ:
کبھی یہ جیالی تھی، نرالی تھی، بڑے تیور والی تھی، لیکن اب بے چاری بس سوالی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسے پہلے جیسا سمجھنا اب محض خام خیالی ہے۔ محبوب کی جس چال کا ذکر ہماری شاعری میں ملتا ہے، اس کی چالوں کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں۔ محبت میں لُٹنا ہو تو اس سے محبت کر لیجیے، آپ لٹاتے رہیں گے اور یہ ”کھپے، کھپے اور کھپے“ کرتی رہے گی۔ اس سے ملاقات بہت مشکل ہے، کیوں کہ یہ یا تو یہ اندر ہوتی ہے، اور جب باہر ہوتی ہے آپے سے باہر ہوجاتی ہے۔

ایم کیوایم کے مزاج کی محبوبہ:
ایک زمانہ تھا جب یہ ایسی محبوبہ ہوتی تھی کہ کہا جاتا تھا جس کو جان عزیز ہو وہ ”اس کی گلی میں جائے کیوں۔“ اب حال یہ ہے کہ ”غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں۔“ ورنہ کون سا کام تھا جو اس کے ایک اشارے پر بند نہیں ہوجاتا تھا! یوں تو اسے محبّت کے کسی نام سے بھی پکارا جاسکتا ہے، لیکن یہ ”چندا“ بہت پسند کرتی ہے۔ یہ بہت ”نفیس“ محبوبہ ہے، بڑی شائستگی سے چھوڑنے کی دھمکی دیتی ہے، ذرا سا منانے سے فوراً مان جاتی ہے۔ نخرے نہیں دکھاتی، بلاتے ہی جھٹ پہلو میں آبیٹھتی ہے، شرط یہ ہے کہ محبوب ”کرسی“ پر بیٹھا ہو۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) سی محبوبہ:
اس پر قدرت کا یہ ”فضل“ ہے کہ یہ ہر ایک سے نباہ کرلیتی ہے، لیکن نکاح اسی سے کرتی ہے جو اس کے دل پر حکومت کرتا ہو، اور وہ اکثر وہی ہوتا ہے جو ملک پر بھی حکومت کرتا ہو۔ مشروبات میں اسے ”ڈیزل“ بہت پسند ہے۔ اس کا رجحان مذہب کی طرف ہے، لیکن جس طرف کی ہوا ہو اس طرف چلنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی۔ محبوبہ کو شراکت گوارہ نہیں ہوتی، لیکن اس کا شراکت کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ شراکت نہ ملے تو یہ قیامت ڈھانے کو تیار ہوجاتی ہے، لیکن اڑیل نہیں۔ قیامت ڈھانے سے روکا جائے تو آناً فاناً واپس جانے، اور جب بلایا جائے تو آنے کو تیّار ہو جاتی ہے۔

جماعتِ اسلامی کے طور طریقوں والی محبوبہ:
یہ محبوبہ نظم وضبط کی بڑی پابند ہوتی ہے۔ نظم سے زیادہ اسے ضبط پسند ہے، اتنا کہ اگر الیکشن لڑتی ہے تو صرف ضمانت ضبط کرانے کے لیے۔ ایک دور میں بڑا سخت پردہ کرتی تھی، اور کوئی زاہدِ خشک ہی اس کا ”رفیق“ بن سکتا تھا، لیکن اب کسی کو بھی حبیب بنا لیتی ہے۔ اب کچھ کچھ کُھل گئی ہے، تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتی ہے۔ اس سے وصل کی خواہش ایک دردِ سر ہے، جب ملنے کو کہو، جواب ملتا ہے، ”گھر کی شوریٰ فیصلہ کرے گی، کب ملنا ہے، کہاں ملنا ہے، کیوں ملنا ہے، کتنا ملنا ہے۔“ محبوب کی اتنی زیادہ خدمت کرتی ہے کہ بیوی لگنے لگتی ہے، اور محبوب ”عین وقت پر“ کوئی ”اور“ دیکھ لیتا ہے۔“

بابوبھائی کو ان محبوباﺅں کے بارے میں بتا کر ہم نے فیصلہ ان پر چھوڑ دیا۔ اب دیکھتے ہیں، ان کے ہاتھ میں چاکلیٹ کا جو پیکٹ تھا، کس کا نصیب بنتا ہے؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں