ولیم شیکسپئر کا شمار دنیا کے عظیم ترین مصنفین میں کیا جاتا ہے۔ شیکسپئر نے ایک سو چھتیس ناٹک، اور ایک سو چون سانیٹ کا ایک مجموعہ جب کہ چند طویل نظمیں لکھیں۔ وہ تاریخ کی ادبی شخصیات میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے جس کے کام کو چار صدیوں سے عقیدت اور احترام کی ںظر سے دیکھا جاتا ہے۔
شیکسپئر کی تصنیفات کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور بلامبالغہ اس کے لکھے ناٹک لاکھوں بار اسٹیج پر پیش کیے جا چکے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس عظیم تخلیق کار کی اپنی شناخت ایک معمہ ہے۔ کیا وہ اس ادب کا خالق ہے جسے مروجہ نقطۂ نظر کے مطابق تسلیم کیا جاتا ہے یا پھر متشککین کے نقطۂ نظر کو درست تسلیم کیا جائے جو اس کو تخلیق کار ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ متشککین کے دلائل میں اتنا وزن ہے کہ انھیں بآسانی نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ولیم شیکسپئر اسٹراٹ فورڈ اون آن کے قصبے میں 1554 کو پیدا ہوا اور 1616 کو فوت ہوا۔ سوانح عمری کے مطابق ولیم شیکسپئر کا باپ ایک مال دار تاجر تھا جسے بعد میں غربت کا زمانہ بھی دیکھنا پڑا۔ ولیم شیکپئر نے اسٹراٹ فورڈ گرائمر اسکول میں داخلہ لیا اور وہیں سے لاطینی اور کلاسیکی ادب پڑھا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اس کی وجہ سے ایک عورت حاملہ ہو گئی جس سے اسے شادی کرنا پڑی اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ ڈھائی سال بعد اس نے دو مزید جڑواں بچّوں کو جنم دیا۔ اس طرح اکیس سال کی عمر میں اس پر ایک بیوی اور تین بچوں کی کفالت کی ذمہ داری آن پڑی۔ اگلے چند برس وہ کیا کرتا رہا اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔ تاہم 1590 کی دہائی میں وہ لندن کے ایک ڈرامہ کمپنی کے ساتھ منسلک تھا اور کام یاب اداکار تھا۔ اس کے بعد اس نے ڈرامے لکھے اور شاعری شروع کی اور جلد ہی وہ کام یاب مصنفین کی صف میں آ کھڑا ہوا۔
چند برسوں میں وہ مال دار ہو گیا اور اس نے اسٹراٹ فورڈ میں ایک بڑا مکان خرید لیا۔ 1612 میں جب وہ اڑتالیس سال کا ہوا تو اس نے تصنیف و تالیف سے کنارہ کشی اختیار کی اور واپس اپنے آبائی قصبے میں جا کر رہنے لگا جہاں چند برس بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ اپنی موت سے قبل اس نے جو وصیت لکھوائی اس میں جائیداد کا بڑا حصہ اپنی بیٹی سوسنا کے نام کر دیا۔ اس کی قبر وہیں گرجا گھر میں بنائی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ یہ وہ حالاتِ زندگی ہیں جس پر شیکسپئر کے معتقد سوانح نگار یقین کرتے ہیں۔ مگر وہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ شیکسپئر کے متعلق بہت ہی کم معلومات میسر ہیں۔ حالانکہ وہ اس کی ایسی توجیہ دیتے ہیں جسے کسی صورت عقل قبول نہیں کرتی۔
کہا جاتا ہے کہ اس کا زمانہ چار سو سال پرانا ہے تو اتنی بڑی شخصیت جو ملکہ الزبتھ کے دور کے انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک کی تھی، کسی پسماندہ افریقی یا ایشیائی ملک کا نہیں۔ اس دور کے انگلستان کے عام لوگوں کے متعلق تو بے شمار دستاویزات موجود ہیں مگر شیکسپئر جیسے بڑے ادیب کی نہیں۔ اگر اس سواںح عمری کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے اسقام سامنے آتے ہیں جیسے اگر وہ اسٹراٹ فورڈ گرائمر اسکول میں پڑھا تو کبھی کسی استاد یا ہم جماعت کا یہ دعویٰ سامنے نہیں آیا کہ وہ شیکسپیئر جیسے عظیم مصنف کے ساتھ پڑھا ہے یا اسے پڑھایا ہے۔
محققین نے نسل در نسل اس پر تحقیق کی تو کئی غیر اہم شعرا اور ادیبوں کے متعلق تو معلومات کے انبار لگا دیے مگر شیکسپئر کے متعلق محض تین درجن حوالے ہی دستیاب ہوئے اور وہ بھی اسے ایک عظیم ادیب یا شاعر ثابت نہیں کرتے۔ حالانکہ اس سے صدی ڈیڑھ صدی پیلے پیدا ہونے والے شاعروں اور ادیبوں کے متعلق ہمارے پاس کئی زیادہ معلومات موجود ہیں مگر شیکسپئر کے متعلق نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شیکسپئر نے بیس سال لندن میں گزارے مگر اس کا بھی ثبوت موجود نہیں کیونکہ کسی ایک شخص نے بھی کہیں ریکارڈ میں یہ نہیں لکھا کہ وہ شیکسپئر سے ملا ہے یا اس سے کوئی خط و کتابت ہوئی۔ کسی نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ اس نے شیکسپئر کو اسٹیج پر دیکھا یا اس کی شاعری یا ڈرامہ سنا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کیا کسی کے لیے بھی یہ کوئی معمولی بات تو نہ تھی۔ چلیں لندن ایک بڑا شہر تھا مگر کیا اس کے اپنے آبائی قصبے میں بھی اس کا کوئی ایسا شناسا نہیں تھا جس کی اس عظیم شخصیت سے تعلق داری ہو اور وہ اس حوالے کو ریکارڈ پر نہ لایا ہو۔
ولیم شیکسپٸر کی شناخت ۔۔. ایک معمہ (حصہ دوٸم) – Urdu Blogs | ARY News
اسٹراٹ فورڈ کے رہائشی حتی کے شیکسپئر کے خاندان نے بھی کہیں اسے ایک شاعر ، ڈرامہ نگار یا ادبی ہستی کے طور پر تسلیم نہیں کیا جو یقینا حیران کن بات ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شیکسپئر کے ہاتھ کا لکھا کوئی مسودہ، شاعری یا روزنامچہ اور کوئی ایسی دستاویز موجود ہی نہیں سوائے چند قانونی کاغذات پر دستخطوں کے۔ اتنے بڑے ادیب کے مکاتیب اور خطوط لوگ نسل در نسل سنبھال کر رکھتے ہیں مگر شیکسپئر کے معاملے میں ایسا نہیں اور کسی بھی شخص کے پاس شیکسپئر کا کوئی بھی مکتوب موجود نہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اس کے ہاتھ کی لکھی تمام تحریریں یوں مٹ گئی ہوں۔
شیکسپئر کے والدین اور بیوی بچے ناخواندہ تھے۔ کیا شیکسپئر جیسے شخص سے جس کی زندگی ہی علم اور لفظ کی محبت میں گزری ہو کیا وہ اپنے بچوں کو ناخواندہ رہنے دے سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو شاید تاریخ میں شیکسپئر وہ واحد عظیم ادیب ہے جس کی اولاد ناخواندہ تھی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ شیکسپئر نے جو وصیت لکھی اس میں معمولی سے معمولی سامان کا ذکر ہے مگر اپنے کسی ڈرامے، نظم یا کتاب کا ذکر نہیں۔ اس کی دستاویزات میں کہیں ہلکا سا اشارہ بھی موجود نہیں کہ وہ ڈرامہ لکھتا ہے یا شاعری کرتا ہے اور کوٸی کتاب شائع کرواٸی ہے یا کروانا چاہتا ہے۔ اس دور میں کسی بڑے شاعر یا ادیب کے مرنے پر اس کے دوست ماتمی جلوس نکالتے مگر شیکسپئر کے مرنے پر کوئی ایسا اہتمام نہیں ہوا اور نہ کسی شاعر یا ادیب کی کوئی تحریر موجود ہے۔ بن جانسن جو بعد میں خود کو شیکسپئر کا سب سے مداح یا دوست کہتا تھا اس کی بھی کوئی تحریر موجود نہیں۔ اس دور میں یہ چلن عام تھا کہ شاعر یا ادیب اپنی زندگی کے تجربات کو اپنی تحریروں میں بیان کرتے تھے۔ شیکسپئر کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے، انتہائی پڑھا لکھا تھا۔ اس کو لاطینی اور فرانسیسی ادب پر مکمل عبور تھا۔ اسے شاہی دربار کے داؤ پیچ اور اشرافیہ کے طور طریقوں اور کھیلوں سے مکمل آگاہی تھی جبکہ شیکسپئر کے متعلق سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کبھی یونیورسٹی نہیں گیا حتی کہ اس کے اسٹراٹ فورڈ گرائمر اسکول میں پڑھنے کے بھی شواہد موجود نہیں۔
شیکسپئر کا تعلق معمولی نوعیت کے اشرافیہ سے تھا اسے یہ داؤ پیچ اور محلاتی سازشیں کس طرح علم میں آئیں جبکہ اس کا دربار سے کبھی رابطہ ثابت نہیں ہوا۔ کیا ملکہ الزبتھ جیسی ملکہ کے دور میں اتنا عظیم ادیب موجود ہو اور یوں نظر انداز کر دیا جائے جو ناقابل فہم ہے۔ الغرض اس بحث سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اسٹراٹ فورڈ میں مد فون وہ ولیم شیکسپئر جسے روایتی نقطۂ نظر کے مطابق سوانح نگار عظیم ادب کا خالق سمجھتے ہیں کیا واقعی اسی نے یہ ادب تخلیق کیا۔ جب کہ اس کے حالات زندگی کے مطابق وہ ایک معمولی نوعیت کا ان پڑھ تاجر تھا جس نے خود یا اس کے خاندان نے اس کے کبھی شاعر یا ادیب ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔ جس کے قصبے میں کوئی اسے عظیم ولیم شیکسپئر کے طور پر نہیں جانتا تھا جس کی اولاد ناخواندہ تھی جس کے ہاتھ کی لکھی کوئی تحریر موجود نہیں۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ڈرامہ یا نظم نہیں چھپوائی اور جن پبلشرز نے چوری چھپے چھاپی بھی تو ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ تمام ایسے سوالات ہیں جو نسلوں سے اٹھائے جا رہے ہیں اس پر پوری پوری کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اگر اسٹراٹ فورڈ کے ولیم شیکسپئر نے یہ ادب تخلیق نہیں کیا تو پھر اس کا خالق کون ہے اس حوالے سے بھی محققین نے سالہا سال تک تحقیق کے بعد متعدد شخصیات کا ذکر کیا گیا جن میں فرانسس بیکن جیسی معروف شخصیت کا نام بھی شامل ہے تاہم تمام شواہد کو سامنے رکھ کر آکسفورڈ کے سترھویں نواب ایڈورڈ ڈی ویری کے نام یہ قرعہ نکلا۔ ایڈورڈ ڈی ویری کے حالات زندگی ولیم شیکسپئر کے ڈراموں سے کافی حد تک میل کھاتے ہیں اور اس کے زندگی کے بہت سے واقعات کا عکس ولیم شیکپئیر کے ڈراموں میں ملتا ہے۔
(جاری ہے)