The news is by your side.

“بول تیرا جیون کس کام آیا…”

“بول تیرا جیون کس کام آیا۔” یہ سوال ممتاز مفتی کے مشہور افسانے “سمے کا بندھن” کا خلاصہ ہے۔

افسانے کا اہم کردار سنہری یہ سوال پوچھتے پوچھتے طوائف سے ایک نیک دل چودھرانی تک کا سفرطے کرتی ہے، لیکن یہ سوال صرف سنہری کے ہی کام نہیں آتا بلکہ قاری کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس افسانے کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ختم نہیں ہوتا بلکہ سوال سے زندہ ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو ہم سب پر ہر گھڑی پوچھنا لازم ہے۔ آخر زندگی کا مقصد ہے کیا؟ یہ جیون کسی کام آیا کہ نہیں؟ ایک محفل میں چند خواتین کو گفتگو کرتے ہوئے سنا تو اچانک سمے کا بندھن اور سنہری کا یہ سوال ذہن میں ابھرا۔ شادی میں ناکامی پر خواتین تبصرہ کرتے ہوئے انتہائی دکھ اور افسوس سے یہ جملہ بار بار دہرا رہی تھیں کہ ہائے بیچاری کی زندگی برباد ہوگئی۔ ہم اکثر یہ جملہ سنتے ہی ہیں ، شادی کے بعد بیٹی خوش رہے تو کہتے ہیں زندگی سنور گئی اور دکھی ہو تو کہتے ہیں زندگی تباہ ہوگئی۔ کیا زندگی اتنی ہی بے قیمت ہے جو کسی اور کی غلطی، ظلم، زیادتی، نا قدری، بے وقوفی کی وجہ سے برباد ہوجائے۔ کیا لڑکی کا اپنی زندگی کو سنوارے رکھنے اور تباہی سے بچانے میں کوئی کردار اللہ نے رکھا ہی نہیں۔ اللہ کا کلام ہے کہ ہم نے جوڑے بنائے تاکہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں۔ یہ سکون و راحت صرف مرد کے لیے مخصوص نہیں خاتون کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اس رشتے سے سکون کی طلب گار ہو لیکن جہاں گھریلو سکون کی بات آئے تو بزرگوں سمیت خاندان کے چھوٹے بڑے اس بات کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک خاتون ہی گھر کو جنت بنا سکتی ہے، سکون برقرار رکھنا خاتونِ خانہ کا ہی فرض ہے۔ جناب آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن اگر سرتاج اس سکون کے پرخچے اڑاتے پھریں تو پھر کیا کیجیے۔ اس پر نصیحت کی جاتی ہے کہ خاتون برداشت کرے، صبر کرے تاکہ کسی طرح گھر کا سکون برقرار رہے۔ اب اس جدوجہد میں اگر خاتون بقا کی جنگ ہار جائے تو بیچاری اور مظلوم جیسے تمغوں سے ضرور نوازا جاسکتا ہے لیکن اپنی ذات پر ظلم برداشت کرکے اسے جنت میں کون سا رتبہ ملے گا یہ واضح نہیں کیا جاتا۔

جان اللہ کی امانت ہے اور ہم سب اس امانت کی رکھوالی کرنے کے ذمہ دار بھی۔ ہماری ذات سے ہم نے کتنا انصاف کیا اس کا جواب ہم سے ہی لیا جائے گا، خود اپنا سکون غارت کرکے گھر کو سنبھالے رکھنے میں مقصد حیات کے ساتھ ذہنی و جسمانی صحت اور کئی مرتبہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا گناہ ہے۔ ایک عام تاثر ہے کہ غریب گھرانے کی لڑکیاں ازدواجی زندگی میں سکون کے لیے برداشت کی چکی میں پستی ہیں لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکی ان پڑھ ہو یا پڑھی لکھی، خاتون خانہ ہو ملازمت پیشہ، امیر یا غریب اس کے بازو پر جیسےگودوا دیا گیا ہے کہ گھر بچانا ہے تو بیوی کی حیثیت سے سمجھوتہ اسی کو کرنا پڑے گا۔ شوہر اس جملے کی طاقت سے اس قدر واقف ہے کہ اتھل پتھل کرنے کے بعد آئی ایم سوری کی جگہ اس منتر کا استعمال کرتا ہے اور خادمہ آپ کے قدموں میں۔ ایسی صورت حال سے گزرتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص کو یہ ضرور پوچھنا چاہیے جو سنہری نے خود سے پوچھا۔

“بول تیرا جیون کس کام آیا…”

جس طرح پرواز سے قبل ایئر ہوسٹس کی ہدایت میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہوا کے دباؤ میں کمی کی صورت میں پہلے خود آکسیجن ماسک لگائیے، پھر دوسرے کی مدد کیجیے بالکل اسی طرح یہ فارمولا ازدواجی زندگی کی پرواز پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اچھی خوش گوار زندگی پر میاں بیوی دونوں کا حق ہے تو اسے برقرار رکھنا بھی دونوں ہی کی ذمہ داری ہے۔ ایک فرد پر بوجھ ڈالا گیا تو طیارہ کریش ہوگا۔

ایسے میں صرف اس بیچاری کی زندگی برباد نہیں ہوتی، خاندان پر بھی تباہی کا ملبہ گرتا ہے۔ لہٰذا بیٹیوں اور بیٹوں کو سمجھوتہ نہیں مذاکرات، بات چیت کی ترغیب دیں۔ کیوں کہ سمجھوتہ ہار اور جیت پر مبنی ہے جب کہ مذاکرات میں دونوں فریق ون ون پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ سوچ میں معمولی سی تبدیلی زندگی جینے کا ڈھنگ بدل سکتی ہے لیکن اس سے بھی پہلے لفظوں کے انتخاب میں تبدیلی ضروری ہے۔ جون ایلیا نے کہا ہے:

زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا

زندگی جیئیں یا گنوائیں اس پر آپ کا اختیار ہونا چاہیے۔ کسی اور کے الفاظ سے اسے برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں