The news is by your side.

پاکستانی معیشت کا وینٹیلیٹر اور آئی ایم ایف

دوسری جنگِ عظیم نے ہنگری کی معیشت پر تباہ کن اثر ڈالا، اس کی نصف صنعتی صلاحیت ختم ہوگئی اور افراطِ زر بدترین ہوگیا۔ ان حالات میں پرانی معاشی پالیسیاں بے سود ثابت ہوئیں۔ جنگوں کے اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لیے عوام کو ٹیکسوں کے ذریعے اور شرحِ سود میں اضافہ کرکے جکڑنے کے بجائے ہنگری کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بینکنگ سیکٹر کے ذریعے رقم کو کاروباری سرگرمیوں کی طرف منتقل کیا جائے۔

ماہرینِ معیشت کو اس سے یہ امید تھی کہ ہنگری میں پیداواری صلاحیت، انفرااسٹرکچر اور اقتصادی سرگرمیاں بحال ہوجائیں گی۔ واضح رہے کہ افراطِ زر کی شرح میں اضافہ ہنگری کے لیے بالکل نیا نہ تھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت نے نوٹ چھاپنے کا راستہ اختیار کیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جنگ سے پہلے ایک امریکی ڈالر پانچ کرونین کا تھا، وہ ستّر ہزار کرونین کا ہوگیا، جس کے بعد اس ملک نے اپنی کرنسی کو کرونین سے پینگو میں تبدیل کر دیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد صورتِ حال پہلے سے زیادہ بگڑ گئی اور ہنگری کی پیداواری صلاحیت نوّے فی صد ختم ہوگئی۔

اب ہنگری میں قیمتیں پہلے سے زیادہ تیزی سے بڑھنے لگیں۔ ٹیکسوں پر انحصار کیے بغیر، ہنگری کی حکومت نے ایک بار پھر نوٹ چھاپنے کے ذریعے معیشت کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بینکوں کو کم شرح پر قرض دیا اور ان کے ذریعے کمپنیوں کو مالی قرضے فراہم کیے گئے۔ حکومت نے براہِ راست کارکنوں کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے درخواست دہندگان کو قرضے فراہم کیے۔ حکومت نے لفظی طور پر ملک کو پیسے سے بھر دیا تاکہ معیشت کو دوبارہ چلایا جا سکے۔ ہنگری نے بتایا کہ پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا، لیکن پرنٹنگ پریس سے جتنا دل چاہے اتنا ضرور تیار ہوسکتا ہے۔ اس سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوا۔ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ اور معیشت کو سنبھالنا ریاضی کا ایک مشکل سوال بن گیا۔

یومیہ افراطِ زر میں دو سو سات فی صد اضافہ ہونے لگا۔ ہر پندرہ گھنٹے بعد اشیا کی قیمتیں دگنی ہونے لگیں۔ لوگوں کی جیب میں صبح جو رقم ہوتی شام تک اس کی قدر گھٹ کر نصف رہ جاتی۔ نئی کرنسی پینگو تباہ ہوچکی تھی۔ ہنگری کی حکومت گھبراہٹ میں جو ہاتھ پاﺅں مار رہی تھی اس کا نتیجہ مزید خرابی اور بدحالی کی صورت میں نکل رہا تھا۔ پھر 1949 میں سوویت یونین کی طرز پر ایک نئے آئین اور نئی کرنسی کے ساتھ ہنگری کو سنبھالا دیا گیا۔ حکومت نے سخت ٹیکس اصلاحات نافذ کیں، سونے کی شکل میں‌ بیرونِ ملک بھیجے گئے اثاثوں کو واپس لانے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے سونے کے ذخائر کی مدد سے ایک نئی کرنسی فارینٹ متعارف کروائی گئی۔ اس طرح کئی معاشی اور مالیاتی اقدامات کے بعد 1960 میں کہیں جا کر ہنگری کی معیشت سنبھلی۔

معاشی ڈھانچا نہ تو یک دَم بگڑتا ہے نہ ہی سنورتا ہے۔ ماہرین، پچھلے کئی سال سے پاکستان کی حکومتوں کو خبردار کرتے رہے ہیں‌ اور خطرے کی گھنٹی بجا رہے تھے کہ ہماری معیشت وینٹیلیٹر کی طرف جارہی ہے، اور اسے موت سے بچانے کے لیے جس طرح پھونکیں ماری جارہی ہیں، یہ اس کا وہی حال کریں گی جو کئی سال قبل ہنگری کا ہوا تھا۔ ماضی سے لے کر آج تک یہاں آنے والی حکومتیں مالی خسارے پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں اور ہمیشہ آئی ایم ایف کا دروازہ ہی آخری سہارا قرار پایا ہے جس سے قرض لینے کی بھاری قیمت عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ گزشتہ ستّر سال سے ملک آئی ایم ایف کی لاٹھی کے سہارے چلانے کے باوجود ہماری معیشت زوال پذیر ہے۔

یہ کہنا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ماہرین اس بات سےمکمل اتفاق نہیں‌ کرتے۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال بھارت کی موجود ہے جس نے نوّے کی دہائی میں اپنا سونا بیچ کر آئی ایم ایف کے قرضے اتارے اور پھر اس کے سامنے کشکول نہیں پھیلایا۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں بھی سامنے ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف کا احسان لینے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کیا۔ امریکا کی مثال دیکھیں تو وہ کبھی بھی افراطِ زر کا شکار نہیں رہا۔ افراطِ زر کی شرح 1920 میں 23 اور 1980 میں 14 فی صد تک پہنچی (ہائپر انفلیشن کے 50 فی صد بینچ مارک کے قریب کہیں بھی نہیں)۔ وہاں حکومت مہنگائی کی شرح پر کڑی نظر رکھتی ہے اور جب ضروری ہو بڑھتی ہوئی افراطِ زر کو کم کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھایا جاتا ہے۔ اس وقت امریکی افراطِ زر تقریباً 2 فی صد سالانہ ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں پاکستان کی معیشت کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی صورت حال کم وبیش وہی ہے جو سالوں پہلے ہنگری، وینیزویلا، یوگو سلاویہ اور زمبابوے کی تھی۔ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گر رہی ہے، افراطِ زر کی شرح میں مسلسل اضافہ اور اب آئی ایم ایف سے مالی امداد لینے کے لیے اس کی سخت شرائط مان کر تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کیا گیا ہوش ربا اضافہ آگے کا منظرنامہ واضح کر رہا ہے۔ افراطِ زر ان موضوعات میں سے ایک ہے جس پر ماہرینِ معاشیات ہمیشہ بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک تقریباً روزانہ کی بنیاد پر افراطِ زردیکھ رہے ہیں۔

اس کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے حکومت کو ایسی حکمتِ عملی طے کرنا ہوگی جس میں‌ عوام کا معیارِ زندگی متاثر نہ ہو۔ ورنہ ان ممالک کی صف میں جاتے دیر نہیں لگے گی جنہیں افراطِ زر نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ان ممالک کی کرنسی کی قدر تیزی سے گرنا شروع ہوئی اور اشیا کی قیمت راتوں رات آسمان کو چھونے لگی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں یہ صورتِ حال اچانک پیدا نہیں ہوئی، اس کے پیچھے کئی دہائیوں کے بے شمار سیاسی اور معاشی عوامل پوشیدہ ہیں، جن کی وجہ سے پیدا ہونے والے بگاڑ پر بروقت قابو نہیں‌ پایا گیا اور نتیجہ یہ ہے کہ آج عوام منہگائی کی دلدل میں‌ بری طرح پھنس چکے ہیں اور ملک میں‌ غربت اور بے روزگاری کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہے جب کہ پاکستان کا معاشی مستقبل خطرے میں‌ نظر آرہا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں