عوام ابھی حکومت کی جانب سے خود پر دو بار’ پٹرول بم’ گرائے جانے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ ہمارے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ایک پُراسرار قہقہے نے انہیں ایک بار پھر دوڑ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔
وزیر کا قہقہہ اور عوام کی دوڑ کا آپس میں کیا تعلق ہے، یہ ہم ابھی واضح کر دیں گے۔ آج کے اس دور میں خالی پیٹ اور سوکھی جیب والوں کیلیے یہ نسبتاً دھیما قہقہہ بھی کسی بم سے کم ثابت نہیں ہوا۔ مہنگائی کی اس چلچلاتی دھوپ میں عوام کو کچھ لمحے تو فرحت کے محسوس ہوتے ہیں، لیکن حکمرانوں کو شاید یہ بھی گوارا نہیں کہ غریب بلکہ ان کی نظر میں بھکاری عوام کچھ وقت چہرے پر مسکان ہی سجا سکیں۔ جبھی تو وزیر خزانہ نے ایک ایسا قہقہہ لگایا جس نے کراچی تا خیبر عوام کے ہونٹوں سے باقی ماندہ مسکان کیا چھینی بلکہ تفکر کی نئی لکیریں اور ڈال دیں جو پہلے ہی سے مارے ہوئے تھے ان کو “مرے کو مارے شاہ مدار” یا ” دس درے اور مارنے” کے مترادف مفتاح نے اپنے شاہانہ قہقہے سے نواز دیا، گو کہ اب تک اس قہقہے کی حقیقت یا خدوخال واضح نہیں ہوئے لیکن پہلے کے ڈسے عوام نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صرف جیب میں پڑے چند روپے دیکھے اور پھر دوڑ لگا دی۔ اب پڑھنے والے اس الجھن میں ہوں گے کہ مفتاح اسماعیل صاحب نے ایسا کون سا قہقہہ لگایا جس پر عوام کی دوڑ لگ گئی۔
تو جناب عالی یہ کوئی خالی خولی قہقہہ نہیں بلکہ اس میں پاکستانی عوام کی مزید کھال کھینچنے کا منظر نامہ پوشیدہ تھا، تھی تو اسلام آباد میں بزنس کمیونٹی کی تقریب اور وہاں موصوف نے حسب سابق انہیں اپنی دو ماہ پرانی مگر تاحال نئی نویلی دلہن کی طرح برتاؤ کرتی شہباز اسپیڈ حکومت کی کارکردگی اور سابق حکومت کی چھوڑی گئی پریشانیوں کی روداد سنانی تھی لیکن نہ جانے انہیں اس موقع پر عوام سے مذاق کرنے کی کیا سوجھی کہ پہلے مسکرائے بلکہ باقاعدہ قہقہہ لگایا پھر کہا کہ “پٹرول” تو سننے اور دیکھنے والے اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ شاید حکومت کو عوام کا کچھ خیال آگیا ہے اور شاید ان کے لیے اس قہقہے میں کوئی خوشی کی خبر ہو لیکن حکمرانوں کے بارے میں خوش گمان عوام کے لیے اگلا لمحہ بڑا سنگین تھا جب ہمارے وزیر خزانہ نے اپنا جملہ پورا کیا کہ پٹرول ابھی تھوڑا اور مہنگا ہوگا اور یہ تھوڑا مہنگا تو سب کو پتہ ہے کہ شہباز اسپیڈ کی حکومت میں 30 روپے تھوڑا کم ہی اضافہ ہوتا ہے۔
اب بھلا یہ بھی کوئی قہقہہ لگا کر بھری دوپہر میں سنانے والی بات تھی اچانک رات گئے ٹی وی پر آتے اور بم گرا دیتے، عوام نے ان کا کیا بگاڑ لینا تھا وہ پہلے سے ہی زخم خوردہ ہیں زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک جاتا تکلیف بڑھتی پھر اللہ اللہ خیر صلّا، لیکن ہوا یہ کہ دن دیہاڑے اس حکومتی قہقہے نے عوام کو چوکنا کردیا اور انہوں نے پٹرول پمپوں کی طرف دوڑ لگا دی پمپس والے بھی حیران اور پریشان کہ ایسا کیا ہوگیا کہ عوام کا رش ٹوٹ پڑا، یہ منظر دیکھ کر عام شہریوں کو بھی تشویش ہوگئی۔ بعد میں وزیر موصوف کو عوام کی اس بھاگ دوڑ کا علم ہوا تو ان کی جانب سے وضاحت کردی گئی اور کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا اور ان کی بات کو غلط سمجھا گیا ہے۔
خیر، اب بیچاری اس غریب عوام کو سمجھ میں آگیا ہے کہ جس طرح امریکا میں کوئی ڈنر مفت نہیں ہوتا اس طرح پاکستان میں سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں کے قہقہے بھی خالی خولی نہیں ہوتے ان میں بھی عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے تو پیارے عوام تیار رہیں کہ یہ پہلا قہقہہ ہے جو قہر بن کر عوام پر ٹوٹنے والا ہے دعا کریں کہ یہ آخری قہقہہ ہو ورنہ عوام فیض احمد فیض کو یاد کرتے ہوئے یہ گنگنانے پر مجبور ہوں گے۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں