The news is by your side.

ڈاکو ہمارے عہد کے…

ایک زمانہ تھا کہ ڈاکو لوگوں کی نظروں سے دور پہاڑوں‌ اور غاروں میں رہتے تھے۔ لوگوں پر ڈاکوؤں کا ایسا خوف طاری رہتا کہ شام کے وقت گھروں سے باہر نہ نکلتے بلکہ اپنے بچوں کو ان ڈاکوؤں کا نام لے کر ڈرایا کرتے تھے، مگر ہمارے عہد کے ڈاکو نہ صرف اپنے موبائل فون سے اپنی تصویریں اور جدید اسلحے سے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بے دھڑک اپنی ویڈیو بنواتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنے ‘کارنامے’ فخر سے شیئر بھی کرتے ہیں۔ کچے کے ایک ڈاکو نے تو اپنا یو ٹیوب چینل بنا کر اسے سبسکرائب کرنے کی استدعا بھی کر دی ہے جس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کچھ عرصہ قبل کچے کے ڈاکوؤں اور ان کے بچوں کو آئی ٹی کورس کرانے کی پیشکش بے سود دکھائی دیتی ہے۔

پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں کا برسوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سندھ اور پنجاب کی سرحد پر کچے کا علاقہ پولیس کے لیے علاقہ غیر جبکہ ڈاکوؤں کی جنت کہلاتا ہے۔ ہر تھوڑے عرصے بعد ڈاکوؤں کے کسی ’’بڑے کارنامے‘‘ کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ کچھ کارروائیاں بھی ہوتی ہیں اور پھر معاملے پر مٹی ڈال کر ڈاکوؤں کے اگلے کسی ’’بڑے کارنامے‘‘ کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پنجاب کے کچے کے علاقے کچھ ماچکہ میں پیش آیا جہاں ڈاکوؤں نے پولیس پر حملہ کیا اور 12 اہل کاروں کو شہید کردیا۔ پنجاب پولیس نے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور الٹا صادق آباد پولیس کو اپنے مغوی اہلکار کی بازیابی کے لیے ڈاکوؤں سے ڈیل کرنا پڑی۔ پولیس نے قتل کے جرم میں سزایافتہ جبار لولائی کو جیل سے رہا کیا تو ڈاکوؤں نے مغوی پولیس اہلکار کو چھوڑا۔

ڈاکوؤں کی اس بڑی کارروائی پر جب پولیس ان کی سرکوبی کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کر سکی تو ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے تک بڑھا دی لیکن اس فہرست میں شامل نمبر ون ڈاکو شاہد لوند کو ایسا اعتراض ہوا کہ اس نے براہ راست محکمہ داخلہ پنجاب کو فون کھڑکا ڈالا۔ پہلے یہ شکوہ کیا کہ میرا تو پولیس اہلکاروں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تو میرا نام اس فہرست میں کیوں شامل کیا؟ جنہوں نے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا ان میں سے کسی کا نام اس فہرست میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ ڈاکو نے محکمہ داخلہ کے فون ریسیو کرنے والے اہلکار کو مفت مشورہ بھی دے دیا۔

ڈاکو

ابھی عوام ڈاکو کی اس دیدہ دلیری سے ہی محظوظ ہو رہے تھے کہ کچے کے ایک اور ڈاکو یار محمد لوند بلوچ نے اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنا یوٹیوب چینل لانچ کر دیا اور صارفین سے اس کو لائیک اور سبسکرائب کرنے کی جرات مندانہ فرمائش بھی کر دی۔

اس ویڈیو کو دیکھ کر کچھ سوشل میڈیا صارفین محظوظ ہو رہے ہوں گے تو کئی نے تو توبہ استغفار پڑھتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہوں گے کہ اب یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ڈاکو سوشل میڈیا پر ‘ایکٹو’ ہوں گے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کیا ہوگا؟

بات ہو رہی تھی کچے کے ڈاکوؤں کی، تو یہ کوئی سال دو سال پرانا قصہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے، جس میں گزرتے وقت اور سوشل میڈیا کی وجہ سے خاصی ترقی بھی ہوگئی ہے۔ اب تو ڈاکو ہنی ٹریپ کے اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ بزرگوں کو بھی دوسری شادی کا جھانسہ دے کر پھنسا لیتے ہیں۔ ایسے بزرگ یہ کہنا بھول جاتے ہیں کہ ’’کوئی مجھے دھوکا نہیں دے سکتا، میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔‘‘

میڈیا پر یہ خبریں بھی آئیں کہ کچے کے یہ ڈاکو پکے کے وارداتیے ہیں جو جدید ترین اسلحہ رکھتے ہیں، جب کہ ان کی سرکوبی کے لیے جن پولیس ٹیموں کو بھیجا جاتا ہے، انہوں نے تو یہ جدید ہتھیار صرف ویڈیوز میں دیکھے ہوتے ہیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ان کی سرکوبی اس لیے نہیں ہوتی کہ انہیں بااثر افراد کے علاوہ خود پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کی سرپرستی اور بھرپور معاونت حاصل ہوتی ہے۔

سیاست میں بھی ڈاکو اور چور کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور مخالفین کو لتاڑنے کے لیے اسی لفظ کو استعمال بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تو تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ ’’یہ کچے کے ڈاکوؤں کو گولی مارتے ہیں، مگر پکے کے ڈاکوؤں کو کرسیوں پر بٹھاتے ہیں۔‘‘ اب پی ٹی آئی رہنما کا یہ اشارہ کس طرف تھا یہ تو اہل سیاست ہی جانیں ہم تو سیدھے سے کچے کے ڈاکوؤں کی طرف آتے ہیں۔

1967 میں پاکستان میں محمد خان ڈاکو بہت مشہور ہوا تھا۔ اس پر قتل اور ڈکیتی کے 40 سے زائد مقددمات قائم تھے اور 6 بار سزائے موت سنائی گئی۔ محمد خان کو اس دور میں وادی سون کا ’’رابن ہڈ‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ سات برس تک اپنے علاقے میں دہشت اور خوف کی علامت بنا رہا، لیکن مفرور قرار دیے جانے کے باوجود کھلی اور متوازی کچہریاں لگاتا تھا۔ اپنے مخالفین اور مخبروں کو قتل اور ناک و کان کٹوانے جیسی بدترین سزائیں دیتا تھا۔ اب یہی کچھ کچے کے ڈاکو بھی کر رہے ہیں کہ ہنی ٹریپ کے ذریعے نوجوان تو نوجوان، بزرگوں کو بھی دوسری شادی کا جھانسہ دے کر لوٹ لیتے ہیں، کچھ کو گاڑیوں اور جانوروں کی سستی فروخت کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسایا جاتا ہے، اور پھر ان پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کرکے یا ان کے رشتے داروں کو بھیج کر بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

ویسے ڈاکو ہونا کوئی قابل فخر بات یا باعزت ذریعۂ روزگار تو نہیں لیکن پھر کیوں کچے کے ڈاکو بے موسم کی فصل اور خود رو پودوں کی طرح نمودار ہوئے جاتے ہیں اس کی تو ایک وجہ ہی سمجھ آتی ہے اور وہ ہے ہماری فلمیں۔

اب آپ کہیں گے کہ فلم کیوں ڈاکو بناتی ہے تو جناب فلم ایک ایسا میدان ہے جس کی شہرت چہار گام ہے اور دنیا میں ناموری پانے کے لیے ہر کوئی پردہ سیمیں پر جگمگانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے دیوانے تو ’’ہر قسم کی قربانی‘‘ دینے سے دریغ نہیں کرتے تو پھر ڈکیتی تو ایسا پیشہ ہے جس میں فلم نہ بھی ملے، مگر دھن تو ملنے لگتا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں کئی فلمیں ڈاکوؤں پر بن چکیں جن میں سلطانہ ڈاکو، پھولن دیوی تو حقیقی کردار تھے لیکن فلمی کہانیوں میں ڈاکوؤں کے کردار بھی دکھائے گئے اور ان فلموں نے بھی بڑی شہرت پائی۔

ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کی پنجابی فلم انڈسٹری پر گویا ڈاکو راج قائم تھا کیونکہ ہر 10 میں سے 7 یا 8 فلمیں ڈاکوؤں پر بنی ہوتی تھیں۔ ہدایتکار کیفی نے پنجابی زبان میں “محمد خان ڈاکو” کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی، جس میں سلطان راہی نے بدنام زمانہ محمد خان ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے مولا جٹ، ڈاکو راج، ملنگی، اچھا گجر، گجر دا کھڑاک، بہرام ڈاکو اور اس جیسی ان گنت فلمی دیکھیں۔ ان فلموں میں ڈاکوؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا اور خوبصورت ہیروئن کھیتوں میں بھاگتی اپنے ڈاکو عاشق کے گرد ناچتی پھرتی تھی۔ جب لوگ خوبصورت پری چہرہ خواتین کو یوں ڈاکوؤں پر مر مٹتے دیکھیں گے تو کس کا دل ہوگا جو ڈاکو بننے پر نہ مچلے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسی امید پر ڈاکو بنی ہو کہ کبھی تو کسی پروڈیوسر یا ہدایت کار کو جوش آئے اور وہ ان پر بھی ’’کچے کے ڈاکو‘‘ کے نام سے فلم بنا لے اور وہ بھی راتوں رات لوگوں کی نظر میں ڈاکو سے ہیرو بن جائیں۔

ویسے تو اب کچے کے ڈاکوؤں کا کراچی سمیت کچھ شہری علاقوں میں گروپ بنا کر وارداتیں کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے لیکن اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا صرف کچے کے ڈاکو ہی قصور وار ہیں۔ عوام کو تو چہار جانب سے لوٹا جا رہا ہے لیکن بے چارے عوام ہیں کہ لب سی کر نہ جانے کس آس میں بیٹھے ہوئے ہیں، شاید وہ بھی کسی ایسے ڈاکو نما ہیرو کا انتظار کر رہے ہیں، جو انہیں ظلم سے نجات دلائے اور باقی سارے ڈاکوؤں کی چھٹی کردے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر خواب دیکھتے رہیں کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔

 اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں