میرے پکارنے پر وہ یوں ڈرتے ڈرتے میرے پاس آیا جیسے اس نے کوئی بہت بڑی غلطی کر دی ہو۔ میلی سی قمیص اور پسینے میں بھیگا ہوا چہرہ۔ وہی تو تھا جسے چند سال قبل اسکول میں داخلہ دلوانے کے لیے میں نے باقاعدہ اس کے والدین سے لڑائی کی تھی، اور آج ان ننھے ہاتھوں میں قلم کے بجائے بھاری اوزار دیکھ کر میں بری طرح چونک اُٹھی۔
وہ گاڑی میں پھرتی سے جیک لگا کر اپنی عمر اور وزن سے کئی گنا بھاری ٹائر دھکیلتا دکان میں لے جا رہا تھا۔ دَم بھر کی شناسائی اس کی آنکھوں میں ابھری اور پھر اس نے اپنی نظریں جھکالیں۔ میں نے اسکول جانے کا پوچھا تو گردن نفی میں ہلا دی۔ ایک گھونسا تھا جو میرے دل پر لگا، آگے تو کچھ بھی پوچھنا بیکار تھا۔ گھر واپس آکر میں نے اسکول کی پرنسپل کو فون کیا اور اس بچّے کی بابت دریافت کیا۔ جو کچھ انھوں نے بتایا وہ میرے لیے مزید حیرانی کا باعث تھا۔ معلوم ہوا کہ اسکول سے صرف ایک یہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں بچّے ڈراپ آﺅٹ ہوئے ہیں۔ وجہ پوچھنا یہاں بھی بیکار تھا۔ تعلیم سے تقدیر بدلنا ایک صبر آزما کام ہے اور اتنا صبر وہ شخص کیسے کرے گا جس نے تلے اوپر بچّے پیدا ہی اس لیے کیے ہوں کہ کمانے والے ہاتھ میسر آجائیں۔ ایسا شخص پیٹ کی بھوک کتابوں سے بجھانے کا فلسفہ کیسے سمجھ پائے گا، یہ اسکول کیوں کہ ایک گوٹھ میں تھا، لہٰذا یہاں آنے والے بچّے والدین کے سائے سے زیادہ غربت کے سائے سے واقف تھے۔
جب تک اسکول کا انتظام میرے ہاتھ میں تھا، میں داخلہ لینے والے ہر بچّے سے باتوں باتوں میں گھر کے حالات ضرور پوچھتی تھی اور یقین جانیے ہر گھر کی ایک ہی کہانی سامنے آتی تھی۔ مختصر سی آمدنی، ڈھیر سارے کھانے والے، والدین کی آپس کی لڑائی، بچّوں کا والدین کے ہاتھوں روئی کی طرح روز دُھنکے جانا، گلی محلّوں میں فسادی اور بے رحم روحوں کا بے مقصد ہجوم۔ سب کی زبان سے ایک ہی کہانی سن کر بھی میرے کان عادی نہیں بن سکے۔ مجھے ہر بار ان بچّوں کے مستقبل سے خوف آتا تھا، لیکن بچّوں کے لیے جیسے یہ سب کوئی عام سی بات تھی اور یہی سب سے بڑی خطرے کی گھنٹی تھی کہ سماج آنے والی نسلوں کی تربیت کس نہج پر کر رہا ہے کہ ان کے اندر سے صحیح اور غلط کی تمیز ہی ختم ہوتی جارہی ہے۔
ایسے میں ایک آخری امید تعلیم ہی تو ہے جس سے ہم ان بچّوں کی سوچ بدل سکتے ہیں، تربیت کر سکتے ہیں، اسی لیے سرکار کے بند اسکولوں کو کھولا گیا، گھروں سے کھینچ کھینچ کر بچّوں کو لایا گیا، والدین کی منت سماجت کی گئی، کتابیں، یونیفارم، فیس سارے خرچے ادارے نے اٹھائے کہ والدین کے پاس اسکول نہ بھیجنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے لیکن افسوس کہ جتنی تیزی سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت گاﺅں گوٹھوں میں بچّوں کی تعلیم پر کام کیا جارہا ہے، اس سے کہیں زیادہ تیزی سے معاشی عدم توازن بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اس ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے جو بچّوں کی تعلیم پر مختلف اداروں کی جانب سے کی جاتی ہے، اور کہانی گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتی ہے کہ اگر بچّہ اسکول جائے گا تو اس کے حصّے کا کمائے گا کون؟ اور اگر کمانے والے ہاتھ کم ہوئے تو بھوک کیسے مٹے گی؟
یہ ماننا پڑے گا کہ اس طبقے کے لوگوں کی خواہشیں اچھے اسٹیٹس کا حصول نہیں ہوتیں۔ دو وقت کی روٹی سے آگے سوچنا ان کے لیے عیاشی ہے اور اکثریت اس عیاشی کا تصور بھی نہیں کرتی۔ وہ بس دال دلیا چلانے کے لیے ہی چھے سال کی عمر سے بچّوں کا منہ دیکھنے لگتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے روئی اور مخمل جیسے ہاتھوں کی ملائمت سخت کاموں کی نذر کردیتے ہیں۔
چائلد لیبر کی بنیادی وجہ ہی غربت ہے، وہ غربت جس نے لاکھوں بچوں کا بچپن دیمک بن کر چاٹ لیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی دیگر ممالک کی طرح چائلڈ لیبر کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کرپشن، منشیات کی اسمگلنگ، جنسی زیادتی، ہراسانی اور جبری شادیوں کے انسداد کے لیے ہیں۔ لیکن قانون کے بننے اور ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، اگر اس کا نفاذ ہی یقینی نہ بنایا جائے۔ یہاں ان تمام قوانین کی طرح چائلڈ لیبر کے قانون کی بھی دَھڑَلّے سے دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ البتہ چند سال پہلے اور آج کے چائلڈ لیبر میں فرق ہے تو بس اتنا کہ پہلے لوگ بچّوں کو کام کرتا دیکھ کر افسوس کرتے اور ان مالکان کو اور والدین کو برا بھلا کہتے جو بچّوں کو کام پر لگاتے تھے، لیکن اب کم سِن محنت کشوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں، گالیاں دینے کے بجائے لوگ کہنے لگے ہیں کہ بھیا اس مہنگائی میں گھر کا بچّہ بچّہ کام نہ کرے تو بھلا کیا کرے۔
اعداد و شمار کے مطابق بڑھتے ہوئے افراطِ زر اور معاشی عدم توازن کے باعث پاکستان چائلڈ لیبر میں دنیا کے تیسرے اور اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔ صرف سندھ میں پانچ سے چودہ سال کے اسکول جانے والے بچّوں کی شرح ساٹھ فی صد ہے اور ان میں سے بھی گیارہ فی صد وہ ہیں جو اسکول جانے کے ساتھ کام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں کی نسبت حالیہ برسوں میں پاکستان میں چائلڈ لیبر چار گنا بڑھ چکا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار جمع کرنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ اس وقت پاکستان کی صرف قالین بافی کی صنعت میں چار سے چودہ سال کے بچّے کام کر رہے ہیں جو کُل افرادی قوّت کا نوّے فی صد بنتے ہیں۔ اندازاََ ایک کروڑ دس لاکھ بچّے زراعت کے شعبے اور گھریلو ملازم کے طور پر کام کر رہے ہیں جہاں ان کی بڑی تعداد آئے دن غیر انسانی رویے جھیلنے پر مجبور ہے۔ دیگر صنعتوں میں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وقتی فائدے کے لیے بچّوں کے مستقبل کو داﺅ پر لگانے کے بجائے ان کی تعلیم پر حکومت سے لے کر خاندان تک سب زور دیں تاکہ مستقل بنیادوں پر نسلوں کی تعمیر کی جا سکے۔بچّے ہمارا مستقبل ہیں اور اس مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اسکول سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔