The news is by your side.

بڑھتی ہو ئی اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو کیسےلگام ڈالے؟

آج ایک بار پھر منکر اسلام اور دشمنان رسول ﷺ کی یلغار ہوئی ہے وہ جو ہمیشہ سے ہی اسلام کو مٹانے اور عظمت رسول ﷺ کو نعوذ باللہ نشانہ بنانے کیلیے ناکام کوششوں میں مصروف رہتے ہیں وہ آج ایک بار پھر حملہ آور ہوئے ہیں اور یہ حملہ کسی یورپی یا مغربی ملک سے نہیں ہوا ہے بلکہ ہندو توا کی حامی مودی حکومت کے بھارت میں ہوا ہے-

مغرب اور یورپی ممالک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر اسلام کی مخالفت اور برگزیدہ و مقدس ہستیوں سے متعلق توہین آمیز بیانات پر اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں عوام کی جانب سے سخت ردعمل اور احتجاج کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ رُو سیاہ کبھی گستاخانہ خاکے، کبھی کسی برگزیدہ ہستی کی زندگی پر فلم بنا کر یا کوئی توہین آمیز بیان دے کر مسلمانوں میں اشتعال انگیزی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت بھارت میں ہندتوا کی حامی مودی کی جماعت کے اراکین نے کی تو پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک نے سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارت سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔

بھارت میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسیوں نے بھارت میں مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو ہوا دی ہے۔ ہندو انتہا پسند کبھی کسی مسجد کو ڈھانے پر تُل جاتے ہیں، کبھی مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت کھانے پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب کو مسئلہ بنا کر مسلمانوں کو بغض و عناد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں‌ مسلمانوں کو معاشی اور ہر لحاظ سے پستی میں‌ دھکیلنے کی کوششیں‌ کی جارہی ہیں‌ اور انتہا پسند ہندوؤں کو بی جے پی کی خاموش حمایت حاصل ہے، لیکن اس مرتبہ جب بی جے پی کے دو اراکین کی جانب سے شانِ رسالت ﷺ میں توہین آمیز بیان دیا گیا تو بھارت اور دنیا بھر لگ بھگ دو ارب مسلمانوں اور تمام اسلامی ممالک نے مودی سرکار سے سخت احتجاج کیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے یکے بعد دیگرے بیانات کے بعد بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یک زبان ہو کر ان کے خلاف سخت ترین کارروائی اور بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ خلیجی اور عرب ممالک سمیت پاکستان، بھارت، ایران، افغانستان، مصر، ترکی، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں مسلمان غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف سڑکوں پر بھرپور احتجاج کررہے ہیں۔ یورپی، افریقی اور امریکا میں بھی جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج ہورہا ہے۔ بھارت کی بات کریں تو وہاں مختلف ریاستوں اور تمام بڑے شہروں میں مسلمان احتجاج کے لیے نکلے، لیکن ان پر پولیس ٹوٹ پری اور وحشیانہ تشدد کیا جس میں درجنوں مظاہرین زخمی اور متعدد جان سے گئے۔ پولیس نے کئی شہروں‌ میں نہ صرف مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پر بدترین تشدد کیا بلکہ ان پر جھوٹے الزامات میں مقدمات بنا کر گھروں کو بھی مسمار کردیا ہے۔

پاکستان سمیت تمام عالمِ‌ اسلام نے بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں اور سعودی عرب، یو اے ای، ایران، قطر، بنگلہ دیش، ترکی و دیگر ممالک میں بھارتی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے جب کہ اسمبلیوں میں بھی مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔

دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کا احتجاج اور دباؤ ہی ہے کہ مودی سرکار نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پہلے ان بدبختوں کی پارٹی رکنیٹ معطل کی پھر نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، لیکن مودی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور کئی فیصلے ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مودی کی حکومت ہندوتوا کو فروغ اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کررہی ہے اور یہ سب بیرونی دباؤ پر کیا گیا ہے اور مقدمہ محض دکھاوے کی کارروائی ہے۔ جس کا ثبوت یہ بھی ہے اب تک وزیراعظم مودی اور ان کے تمام وزرا نے اس معاملے پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ویسے بھی مودی ہندوتوا کی حامی جماعت آر ایس ایس کے بانی اور تاحیات رکن ہیں اور ان سے مسلمانوں کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عوامی اور سرکاری سطح پر حالیہ احتجاج کے بعد بھارتی حکومت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف اپنی روش ترک کر دے گی اور ان کو مذہبی آزادی کے ساتھ سماج میں اپنے حقوق اور تحفظ بھی حاصل ہو جائے گا؟

بھارت میں توہین آمیز بیانات کے بعد عمان کے مفتیٔ اعظم کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی جس پر وہاں سپر اسٹورز بھارتی مصنوعات سے خالی ہونے لگے تھے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا تھا کہ خلیجی ممالک کی کمپنیاں بھارتی ملازمین کو فارغ کررہی ہیں، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

یہ سب پہلی بار نہیں ہوا ہے اور ماضی قریب میں کبھی فرانس تو کبھی امریکا اور خود کو ترقی یافتہ و مہذب کہنے والے ممالک میں بدبختوں نے اسلام اور شانِ رسالت میں ہرزہ سرائی کی ہے جو اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کے ساتھ دنیا کا امن تہ و بالا کرنے کا سبب بنا ہے۔

ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں‌ مسلمانوں کی بڑی تعداد حیران کن ہے اور اس رپورٹ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور بعض ماہرین کی تحقیقی رپورٹوں‌ کے مطابق 2050 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ دنیا کے نقشے پر 57 اسلامی ملک موجود ہیں دنیا کے 10 بڑے آبادی والے ممالک میں اسلامی ملکوں کی تعداد 6 ہے، جن میں سے ایک ملک دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت ہے، لیکن افسوس کہ اپنی پالیسیوں، مغرب اور یورپ کی کاسہ لیسی اور باہمی اختلافات کے باعث ان 57 ممالک کی حیثیت صرف کاغذی شیر کی سی ہے۔ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے مسلمان ممالک کو مضبوط معیشت کے ساتھ علم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ہماری اس کمزوری اور علم و فنون کے میدان میں پستی کا علم ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔

آج کی دنیا معیشت کی دنیا ہے، جس کی معیشت مضبوط اس کا ملک مضبوط۔ بھارت لگ بھگ دو ارب کی آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کی بڑی مارکیٹ ہی کسی بھی ملک کو بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکتی ہے، آج بڑی تجارتی منڈی ہونے کی وجہ سے بھارت دنیا کی پہلی ترجیح ہے۔ اسلامی ممالک کے بھی بھارت سے معاشی مفادات وابستہ ہیں اگر ان واقعات کی روک تھام کرنی ہے تو پھر ان اسلامی ممالک کو اپنے وقتی معاشی فوائد کو نظرانداز کرکے بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔

معاشی طور پر مضبوط اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب بھارت کو تیل بیچنے والا سب سے بڑا ملک ہے دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ممالک میں بڑی سرمایہ کاری ہے اسی طرح یو اے ای اور بھارت بھی ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، رواں برس ہی دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو ایک سو ارب ڈالر سے آگے لے جانے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اسی طرح دیگر ممالک کے بھی تجارتی تعلقات ہیں۔

یہاں یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معیشت صرف اسلامی ممالک کیلیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی اہم ہے، ماضی میں جب ملائیشیا صرف اپنے صدر مہاتیر محمد کے دورہ برطانیہ کے موقع پر ان کا کارٹون برطانوی اخبارات میں شائع ہونے پر برطانیہ سے تجارتی تعلقات منقطع کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے، تو پھر بھارت سے تجارت کے رشتے میں بندھے اسلامی ممالک انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ متحد ہوکر اور متفقہ فیصلہ کرکے بھارت کو بھی اسلام دشمن اور توہین رسالت جیسے واقعات کی حتمی روک تھام اور توہین کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے معاشی تعلقات ختم کرکے اسے اسلامی دنیا کے آگے گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں