The news is by your side.

عید الاضحی پر قربانی کرنا مشکل کیوں؟

بھیا اس جانور کی قیمت بتانا؟ سوال پوچھنے پر بجائے قیمت بتانے کے، جھٹ اس نے جانور کے گلے میں جھولتا نمبر دیکھا اور میز پر پڑی فائلوں میں سے ایک فائل نکال لی۔

ہم حیرت سے کھڑے ساری کار گزاری دیکھتے رہے۔ بھائی جان یہ جو جانور ہے نا، پہلے اس کے بارے میں آپ کو بتا دوں، اور یہ کہتے ہوئے اس نے فائل میں درج جانور کا بائیو ڈیٹا پڑھنا شروع کر دیا۔ یقین جانیے اس فائل میں جانور سے متعلق تمام معلومات موجود تھیں، جس میں تاریخِ پیدائش سے موجودہ عمر کا تعین، وزن (زندہ حالت میں‌ الگ اور قربانی کے بعد حاصل ہونے والے گوشت کا اندازاً الگ)، نسل قد، رنگت، ٹیکوں کی تاریخیں اور نام بھی شامل تھا۔ اس کے بعد بہت سکون سے ہماری طرف دیکھ کر اس ملازم نے جانور کی قیمت “صرف بارہ لاکھ” بتائی۔ ہم نے منہ پھاڑ کر حیرت سے اسے دیکھا اور پھر پلٹ گئے۔ سارے راستے سَر پیٹتے رہے کہ اس تباہ حال، برباد، اور پریشان حال قوم کے لیے قربانی کے فریضے کو مصیبت بنانے کا کام کس قدر تزک و احتشام سے جاری ہے۔

مویشی منڈی جانے کا شوق بہ ذاتِ خود ایک انوکھا شوق ہے۔ بچّے بڑے سب کی زبان پر ان دنوں بس یہی موضوع ہوتا ہے۔ بچّوں کے اسی شوق کی تکمیل کی خاطر ہر سال ذی الحج کا چاند نظر آنے کے بعد سپر ہائی وے کی مویشی منڈی جانا میرا معمول ہے۔ لیکن بہت سارے سوالیہ نشان لیے واپس گھر لوٹتی ہوں اور ہر سال قربانی کے جانوروں کی منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے لیے بیوپاریوں کے ڈرامائی انداز اور نامناسب رویہ دیکھ کر قوم کی اخلاقی پستی پر یقین پختہ ہوجاتا ہے جس نے ایک مقدس مذہبی فریضے کی ادائی بھی مشکل بنا دی ہے۔

بارہ سو ایکڑ کے رقبے پر محیط سپر ہائی وے پر واقع ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی کے وی آئی پی بلاک میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے۔ یہ ایک بڑا کڑوا سچ ہے کہ ہر انسانی ضرورت کو سرمایہ دارانہ نظام نے برانڈ میں تبدیل کر کے عام آدمی کی قوّتِ خرید کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا ہے۔ تعلیم برانڈ بنی تو سرکاری اسکولوں کی گرتی دیواروں میں سفید پوش لوگ بھی دفن ہوگئے، برانڈڈ چیزوں سے سجے مال تعمیر ہوئے تو گلی کے کونے پر کسی غریب کی پرچون کی دکان بند ہوگئی، برانڈڈ مسالوں نے تو بھلا ہی ڈالا کہ پہلے ہر علاقے میں ایک چکی کی دکان بھی ہوا کرتی تھی جہاں تازہ مسالے آنکھوں کے سامنے پستے اور فروخت ہوتے تھے۔ وقت نے ہر چیز بدل ڈالی، بیوٹیشن ہو یا کیٹرنگ، جوڑا ہو چپل یا میک اپ غرض کوئی انسانی ضرورت کی شے ہو کسی مشہور برانڈ کی خریدنا ہمارا قومی مزاج بنتا جا رہا ہے، اور اب تو جانور کی قربانی کا حال بھی یہی ہوگیا ہے۔ اس ساری بھاگ دوڑ میں ایک عام فرد اور اس کے مسائل تو کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ایک عام آدمی پر سکھ چین حرام کرنے والا صرف یہی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے کرتا دھرتا ہیں۔ یقیناً نہیں۔

بیوپاریوں کی جانب سے قربانی کے جانوروں کی بہت زیادہ قیمت لگانا اور من چاہے دام طلب کرنے میں عمل دخل ایک فرد کی اُس مذہبی سوچ کا بھی ہے جس میں وہ قربانی کے جانور کا خوب صورت ہونا زیادہ اہم تصوّر کرتا ہے، اور بڑے بڑے سرمایہ دار قربانی کے لیے جانوروں پر رقم لگاتے ہیں اور انہیں منہ مانگی قیمتوں پر بیچ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ خریداروں کو چاہیے کہ وہ دکھاوے اور نمائش کے لیے نہیں اللہ کی خوش نودی کے لیے قربانی کریں۔ اگرہم فلسفۂ قربانی کو سمجھیں اور اس کی روح کے مطابق اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں قربانی دیں تو شایداکثریت آسانی سے یہ فرض ادا کرسکے۔مویشی مارکیٹ میں قربانی کا جانور “برانڈ” کیا بنا چھوٹے موٹے بیوپاری بھی لالچ میں آگئے اور آج وہ اپنے جانوروں کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے منہ پھاڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کے فرض کی ادائی ایک عام آدمی کے لیے مشکل ہوگئی ہے۔ نچلے طبقے کے لیے پہلے ہی مشکل ہوجانے والی قربانی اب متوسط طبقے کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس سارے معاملے میں حکومت کا کیا کردار ہے؟ لیکن میرے نزدیک یہ سوال اس لیے بے معنی ہے کہ حکومت کا کردار تو کسی بھی جرم کی روک تھام میں کہیں بھی نہیں ہے۔ جی ہاں میں اسے جرم ہی قرار دوں گی! کسی بھی چیز کے نرخ اور قیمتوں کی مانیٹرنگ کا باقاعدہ اور مؤثر نظام اور اس حوالے سے عام اور چھوٹے بیوپاری سے لے کر بڑے سرمایہ دار تک کو ابتدا سے آخر تک عام سہولیات فراہم کرتے ہوئے ضروری سبسڈی دے کر ان کو مال کی جائز اور ایک حد تک قیمت وصول کرنے کا پابند کیا جائے تو بات بن سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر عام آدمی کی قوّتِ خرید متأثر ہوگی اور اس کی مشکلات بڑھیں گی جو جرم نہیں تو اور کیا ہے؟

ایک اسلامی معاشرے میں قربانی کا فرض ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے آسان ہونا چاہیے، لیکن اس وقت حال یہ ہے کہ بکروں کی قیمتیں ساٹھ ہزار سے شروع ہو رہی ہیں اور ایک معمولی جسامت اور وزن کی گائے کی قیمت بھی لاکھوں میں بتائی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ جس طرح بڑے بڑے شاپنگ مالز میں جا کر “ونڈو شاپنگ” کرتے ہیں، بالکل اسی طرح مویشی منڈی جاکر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس وقت بھی ملک کی بڑی مویشی منڈیوں میں خریدار کم اور “ونڈو شاپنگ” کی غرض سے آنے والوں کا ہجوم زیادہ ہے۔

گذشتہ چند سال کے دوران مویشیوں کی خریداری کے حوالے سے معاشرے کے نچلے و متوسط طبقات پریشان ہی رہے ہیں اور کم آمدنی والوں کے لیے جانور خریدنا ممکن نہیں رہا ہے۔ ایسے لوگ ہر سال کی طرح اس سال بھی جیب میں رقم رکھ کے عید کی نماز سے چند گھنٹے قبل تک جانور ڈھونڈ رہے ہوں گے لیکن بہت کم لوگ اس رقم میں جانور خرید پائیں گے۔ پہلے بیوپاری گاہک کو خالی ہاتھ جاتا دیکھ کر مختلف حیلے بہانوں سے اسے روک لیتا تھا، اور بکرے یا گائے وغیرہ کی قیمت پر کچھ بحث اور تھوڑی تکرار کے بعد سودا ہو جایا کرتا تھا، لیکن اب عام مشاہدہ ہے کہ بیوپاری اپنے بتائے ہوئے دام پر اڑے بیٹھے رہتے ہیں اور یہ رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ قربانی اب آپ کے بس سے باہر ہوچکی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں