The news is by your side.

بیتی کہانی: اردو میں عورت کی پہلی بپتا!

بدقسمتی کس بلا کا نام ہے، یہ جاننا ہو تو ایک نواب زادی کی کتاب پڑھیے، جس کا نام ہے ”بیتی کہانی۔“

لیکن کتاب اس لیے اہم نہیں کہ یہ اس خاتون کی کہانی سناتی ہے جس نے ایک ریاست کے حکم راں کے محل میں جنم لیا اور رخصت ہو کر دوسری ریاست کے والی کے قصر میں پہنچی، پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس کی زندگی افلاس اور مصائب کا نوحہ بن کر رہ گئی۔ شہر بانو بیگم کا احوالِ زیست سُناتے یہ اوراق اردو میں کسی خاتون کی پہلی خود نوشت ہونے کی بنا پر قابلِ قدر اور وقعت کے حامل ہیں۔

شہر بانو بیگم ماضی کے ہندوستان کی ریاست پاٹودی (جسے عام طور پر پٹودی کہا جاتا ہے، تاہم ”بیتی کہانی“ میں پاٹودی لکھا گیا ہے) کے نواب اکبر علی خاں کی صاحب زادی اور اس ریاست کے بانی اور پہلے حکم راں نواب فیض طلب خاں کی پوتی تھیں۔

آزادی اور تقسیم سے پہلے کے ہندوستان میں 565 دیسی ریاستیں اور رجواڑے اپنا وجود رکھتے تھے، جن میں حیدرآباد دکن اور کشمیر جیسی وسیع و عریض ریاستوں کے ساتھ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے کراچی کے کسی محلّے سے بھی چھوٹی، ننھی مُنی ریاستیں بھی شامل تھیں۔ پاٹودی دہلی کے قریب واقع ایک ایسی ہی ریاست تھی، جس پر ایک افغان نسل کے خاندان کی حکومت تھی، یہ وہی خاندان ہے جس کے چشم وچراغ مشہور بھارتی کرکٹر منصورعلی خان پٹودی، ان کے بیٹے بولی وڈ کے نام ور اداکار سیف علی خان اور بیٹی اور اداکارہ سوہا علی خان ہیں۔

شہر بانو بیگم کی یہ کتاب دراصل ان کا بیان کردہ اپنا احوالِ زیست ہے جو انھوں نے ایک انگریز خاتون مس فلیٹچر کے اصرار پر تحریر کیا۔

کتاب کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:

”مس فلیٹچر! میری کہانی پڑھ کر تم کیا نفع پاؤ گی، رنج و غم کھاؤ گی، اپنا جی دکھاؤ گی اور کچھ حظ نہ اٹھاؤ گی۔ اور اگر ضد ہی کرتی ہو تو ایلو! میں اپنی سرگذشت ابتدا سے انتہا تک لکھے دیتی ہوں۔ ذرا خیال سے پڑھنا، گھبرا نہ جانا۔“

یہ ”اے لو“ خالص نسوانی زبان ہے، اور کتاب میں دہلی کی یہ خالص بیگماتی زبان محاوروں کا تڑکا لیے اس دور کا لسانی منظر بھی ہمارے سامنے لاتی ہے۔

128 صفحات پر مشتمل اس خود نوشت میں اگرچہ خالصتاً مصنفہ کی ذاتی زندگی کے روز و شب بیان کیے گئے ہیں، لیکن اس کے ذریعے ہمیں اس دور کے بہت سے سیاسی، سماجی اور معاشی حقائق سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ آج جب ہم کم عمری کی شادی کے خلاف یکسو ہیں، ہمارے لیے یہ بات حیرت انگیز ہوگی کہ ادھر شہر بانو بیگم کی ولادت ہوئی، اُدھر پاٹودی کے نزدیک واقع ایک اور ریاست جھجر کے حکم راں، نواب عبدالرحمٰن، جو رئیس جھجر کہلاتے تھے، کی نواب پاٹودی کے محل میں اتفاقیہ طور پر آمد ہوئی۔ انھیں جب اپنے دیرینہ دوست کے گھر نورِ نظر کے تولد ہونے کا علم ہوا تو نومولود کو گود میں اٹھایا اور اسے اپنی بہو بنانے کا اعلان کر دیا۔ لیجیے، پیدائش کے ساتھ ہی رشتہ طے پاگیا۔

پانچ سال کی ہوئیں تو دلہن بنا کر رخصت کردی گئیں۔ اپنی شادی کو کھیل تماشا سمجھنے والی بچّی کا حال اسی سے سُنیے:

”اب میرا حال سنو کہ میں نگوڑی پانچ برس کی جان، بھلا مجھ کو کیا خبر کہ نکاح کس کو کہتے ہیں اور شادی کیا چیز ہے۔ بوا! جس وقت ساچق آئی، باجوں کا شور اور توپوں کی کڑک سنی، بے اختیار پلنگ پر سے کود پڑی اور جھٹ دادی اماں کے گلے میں جا کر بانہیں ڈال دیں کہ اچھی دادی اماں! ہم بھی برات کا تماشا دیکھیں گے۔ بس میرا یہ کہنا تھا کہ ساری عورتوں نے ایک قہقہہ مارا اور چاروں طرف سے آن کر مجھے گھیر لیا۔ انا، ددا، مانی، چھوچھو کہنے لگیں کہ اوئی بیوی! ہم تیرے واری قربان جائیں، بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔ اب سمدھنیں اتریں گی تو وہ دیکھ کر کیا کہیں گی کہ خود دلہن ساچق کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ مگر بوا! میں نے ایک نہ سنی، لگی ایڑیاں رگڑنے اور ایسا رونا شروع کیا کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ سب کے ہوش اڑا دیے۔ آخر دادی اماں نے کہا: اللہ ری ضدّن بچی، اتنی سی جان نے ناچ نچا دیا۔ ارے لوگو! میں اسے کیوں کر تماشا دکھانے کو اس وقت اوپر لے جاؤں۔ اندھیرے اجالے وقت اپنی ماں کی اکلوتی بچّی۔ اے اس کی اماں کہاں ہیں، انھیں تو بلاؤ۔ لیکن میں نے تو بلک بلک کر ان کو ناچار کر دیا۔ آخر وہ اپنے دوپٹے کا آنچل اوڑھا، سیدھے کوٹھے پر لے چڑھیں۔ آپ اوٹ میں کھڑے رہیں اور میرا آدھا چہرہ باہر کر دیا۔ پھر تو میں نے بھی ساچق کا خوب تماشا دیکھا۔“

ساچق وہ رسم ہے جسے آج ہمارے ہاں ”بری کا آنا“ کہا جاتا ہے، جس میں دولھا والوں کی طرف سے دلہن کا لباس اور دیگر لوازمات آتے ہیں۔

اگلے روز وہ رخصت ہو کر اپنے سسرال ریاست جھجر چلی گئیں۔

اس خود نوشت میں ہمیں 1857 کی جنگِ آزادی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں، اور ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ باغی جنھیں آج ہیرو کا درجہ حاصل ہے اس دور کے ایک خاص مراعات یافتہ اور انگریز نواز طبقے کے لیے کیا حیثیت رکھتے تھے۔ ساتھ ہی ردعمل میں اور اچانک برپا ہوجانے والی اس بغاوت میں حصہ لینے والوں کی کچھ ٹولیوں کی ظالمانہ روش بھی ہمارے سامنے آتی ہے۔ باغیوں نے ریاست میں داخل ہو کر ان کے بھائی کو یرغمال بنا لیا تھا، اور بدلے میں رقم طلب کی تھی۔ وہ لکھتی ہیں:

”بقرعید کی چودھویں یا پندرھویں تاریخ تھی۔ نہیں معلوم موئے کہاں کے الفتی ان پر خدا کی مار، باغیوں کے ساٹھ ستر سوار ہماری ریاست کے لوٹنے کی نیت سے پاٹودی میں آدھمکے اور آتے ہی میرے بڑے بھائی جان محمد تقی علی خاں مرحوم کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ ہم تو پانچ ہزار روپیہ لیں گے، جب ان کو چھوڑیں گے۔ ان کی بہت منت سماجت کی اور سمجھایا مگر ان کے سر پر تو شیطان سوار تھا۔ وہ کب سنتے تھے۔ ان کو نہ چھوڑا آخر ناچار ابّا جان نے پانچ ہزار روپیہ ان موذیوں کو بھیجا تو صبح سے گھرے ہوئے چار گھڑی دن باقی رہا تھا جو بھائی جان ان کے پھندے سے چھوٹ کر سلامتی سے اپنے گھر آئے۔“

جنگِ آزادی کے اثرات مصنّفہ پر براہِ راست مرتب ہوئے، وہ یوں کہ ان کے سسر رئیس جھجر کو باغیوں کی مدد کرنے کی پاداش میں پھانسی چڑھا دیا گیا اور ان کی ریاست ضبط کرنے کے بعد حکم راں خاندان کے افراد کو جھجر چھوڑ کر لدھیانہ میں جا بسنے کا حکم ملا۔

کچھ عرصے بعد شہر بانو بیگم بھی سسرال والوں کے اصرار پر شوہر کے پاس لدھایانہ پہنچ گئیں، جہاں ہمیں غریب اور متوسط طبقے کے گھروں کی طرح ساس کے بہو سے بغض و عداوت کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہ کتاب ہمیں اس دور کے انتشار اور انسانی گراوٹ کی تصویر بھی دکھاتی ہے۔ جب یہ خبر ملی کہ باغی ریاست پاٹودی پر حملہ آور ہوچکے ہیں تو یہ خبر سنتے ہی ریاست کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ شہر بانو کے والد اہلِ خانہ کو لے کر بہ مشکل اپنے سمدھیانے اور دوست کی ریاست جھجر پہنچے، اور جب بغاوت کچل دی گئی تو انھوں نے واپسی کی راہ لی۔ واپس آکر کیا حال دیکھا، پڑھیے:

”ابا جان جھجر سے روانہ ہو کر پاٹودی پہنچے اور ہم ان کے سب متعلقین بھی ایک دوسرے کے بعد آ گئے۔ دیکھا تو عجب طرح کا سناٹا ہے۔ اب یہ دور اوجڑ بستی سُونے دیس کی مثل صادق آتی ہے۔ گھر ہے کہ بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ نہ کوٹھریوں میں اسباب ہے نہ دالانوں میں فرش۔ چیز بست کیا نام، جھاڑو دینے کو تنکا تک نظر نہیں آیا۔ چینی کے برتن ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں۔ شیشہ کے آلات چکنا چور ہوئے دھرے ہیں۔ نہ پلنگ ہے نہ چارپائی، نہ دری ہے نہ چٹائی۔ مال اسباب نقد و جنس جو جو کچھ تھا سارے گھروں سے موئے گنوار ان پر خدا کی مار، لُوٹ کر لے گئے۔ آخر ان کی جانوں پر صبر کر کے نئے سرے سے پھر سامان درست کرنا شروع کیا۔“

ہم سرکاری اداروں میں رشوت کو روتے ہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہمارے خطے کا ماضی اس بلا سے محفوظ تھا، لیکن شہر بانو بیگم کی 1885 میں تحریر کردہ یہ کتاب بتاتی ہے کہ اس دور میں بھی سرکاری اہل کاروں کی ”منہ بھرائی“ کرنا سائل پر واجب تھا۔ ہُوا یوں کہ جھجر کی ریاست اجڑنے اور ان کے سسرال والوں کے وہاں سے جلا وطن ہو کر لدھیانہ پہنچنے کے بعد کا دور شہر بانو بیگم کے لیے جو رنج والم اور درد لایا وہ تاعمر ان کے ساتھ رہے۔ شوہر بُری لتوں میں یوں پڑے کہ اپنی ماں کے انتقال کے بعد ساری دولت لٹا کر کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ آخر شہر بانو بیگم نے ان سے الگ ہونے کی ٹھان لی، لکھتی ہیں کہ انھیں مشورہ دیا گیا:

”ایسے نازک وقت میں تمھیں دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی چاہیے۔ ایک تو یہ کہ اگر تم کو مال و زر زیادہ عزیز ہے اور خاوند سے ان بن ہونے کی کچھ پروا نہیں ہے تو بے شک نالش کر دو، البتہ مقدمے کی پیروی میں روپیہ بہت خرچ ہوگا، اس کا بندوبست کر لو۔ سرکار کی فیس، وکیل کا دینا، اہل کاروں کی منہ بھرائی۔“ لیکن اس فیصلے پر قائم نہ رہ سکیں اور شوہر کے مرتے دَم تک ان کا ساتھ نبھایا۔

اس کہانی میں مصنّفہ کے بچّوں کی اموات کے بعد ان کی گود کا خالی رہ جانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ان کی داستان میں رشتوں کی خودغرضیاں بھی اپنا رنگ دکھاتی ہیں، وہ بھی ماں جیسا رشتہ، ایک ایسی ماں جو دشمن بن کر پریشان حال بیٹی کی مصیبتیں بڑھانے پر تلی ہے۔

”بیتی کہانی“ ایک شہزادی، ایک عورت ہی کی کتھا نہیں، یہ اُس برصغیر کی بھی ورق ورق دکھائی دینے والی جھلک ہے جو انارکی سے گزر کر ایک نئے دور میں داخل ہورہا تھا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں