The news is by your side.

ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت کر اس تاریخی فتح کی یاد تازہ نہیں کرسکی جس کا جشن قوم نے آج سے تیس سال قبل منایا تھا، لیکن ٹیم نے جس شان سے اس ٹورنامنٹ کا اختتام کیا، اس نے کروڑوں پاکستانیوں اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے ہیں۔

آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کے سامنے انگلینڈ کے کھلاڑی تھے اور ان کی ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بنی، لیکن ٹورنامنٹ کے فائنل سے قبل پاکستان جس طرح کھیلا اور سیمی فائنل تک پہنچا، اس نے دنیا بھر میں شائقینِ کرکٹ کو 1992ءکے ون ڈے ورلڈ کپ کی یاد دلا دی۔ اس ون ڈے اور حالیہ ٹورنامنٹ میں مماثلت ایک دل چسپ موضوع بن گیا اور ہر طرف اس پر بات ہونے لگی۔ پھر جب سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ٹاکرا ہوا تو قومی ٹیم کی کام یابی سے ان میچوں میں مماثلت کی باتوں کو مزید تقویت ملی۔ دوسرے روز جب انگلینڈ نے آسان فتح کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو پاکستانی شائقین کی توقعات اور ان کی خوش امیدی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by ICC (@icc)

اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل بھی اسی میدان میں‌ کھیلا گیا جس میں‌ 1992ء میں پاکستان نے فتح حاصل کی تھی بلکہ حریف ٹیم بھی اسی ملک کی تھی جس کا سامنا پاکستانی کھلاڑیوں نے 30 سال پہلے کیا تھا۔ یعنی میلبرن میں ایک بار پھر پاکستان اور انگلینڈ آمنے سامنے تھے۔ قوم توقع کررہی تھی کہ جس طرح 1992ء میں عمران خان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھامی تھی، اسی طرح بابر اعظم بھی ٹرافی لے کر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ شاداں و فرحاں وطن لوٹیں گے۔

میدان میں اترنے سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پوری ٹیم میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور تاریخ دہرانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ کوشش نظر بھی آئی، لیکن قسمت میں فتح نہیں لکھی تھی۔ انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے پاکستانی شائقین کے دل ضرور ٹوٹے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے حریف ٹیم کا خوب مقابلہ کیا اور شکست کے باوجود سَر اٹھا کر میدان سے باہر آئے۔

اس میچ میں‌ ٹاس جیت کر انگلینڈ نے پاکستان کو بیٹنگ کا موقع دیا تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل سمیت سپر 12 مرحلے میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف بیٹنگ اور کپتان بابر اعظم کی فارم میں واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے شائقینِ کرکٹ کو قومی ٹیم سے اچھے اسکور کی امید تھی لیکن انھیں مایوسی ہوئی۔ پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 138 رنز کا ہدف دیا جو مختصر طرز کے اس تیز ترین کرکٹ فارمیٹ میں قابلِ‌ ذکر ہدف نہیں تھا۔ بلّے بازوں کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بلّے باز نصف سنچری نہ بنا سکا اور نہ ہی کوئی 50 رنز کی پارٹنر شپ ہوسکی۔ رہی سہی کسر بیٹسمینوں نے 48 ڈاٹ بالز کھیل کر پورا کر دی۔ دوسرے لفظوں میں 8 اووروں میں گرین شرٹس کوئی رن نہ بنا پائی۔ بیٹنگ میں شاہینوں کی یہ کارکردگی اور انگلینڈ کے اوپننگ بلّے بازوں کی بھارت کے خلاف طوفانی بیٹنگ دیکھتے ہوئے فائنل میں شائقینِ کرکٹ ناامید ہو چلے تھے اور دوسری اننگ سے قبل یہ یکطرفہ مقابلہ لگ رہا تھا لیکن پاکستانی بولروں نے اس موقع پر دنیائے کرکٹ میں اپنی صلاحیتیوں کا بہترین مظاہرہ کیا اور اپنا نام اونچا کیا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by ICC (@icc)

پاکستانی بولروں نے 138 رنز کے آسان ہدف کا حصول انگلینڈ کے بلّے بازوں کے لیے ناکوں چنے چبوانے کے مترادف بنا دیا۔ انگلش اوپنرز جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز جنھوں نے سیمی فائنل میں بھارتی بولروں کی خوب دھنائی کی تھی انھیں ابتدا ہی میں پویلین لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ ایک موقع پر 84 رنز پر انگلینڈ کے 4 باصلاحیت بلّے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور انگلش ٹیم کے لیے رنز کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ پھر قسمت نے انگلینڈ کا ساتھ اس طرح دیا کہ پاکستانی بولر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہو کر میدان سے باہر ہوگئے۔ ان کے جانے سے جہاں قومی ٹیم کو دھچکا لگا وہیں انگلش بلّے بازوں کی جان میں جان آئی کیوں کہ ابھی ان کے دو اوورز باقی تھے۔

شاہین شاہ آفریدی کا زخمی ہونا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ کیوں کہ ان کی میدان میں موجودگی کے وقت فتح کے لیے انگلش ٹیم کو 30 گیندوں پر 48 رنز درکار تھے لیکن شاہین شاہ میدان سے کیا لوٹے پاکستان کی تمام امیدوں اور خوشیوں نے بھی منہ موڑ لیا اور بظاہر ایک مشکل ہدف کو انگلش بلّے بازوں نے ایک اوور قبل ہی حاصل کرلیا۔

شکست کے باوجود پوری قوم اور ہمارے سابق کھلاڑیوں سمیت دنیا کے مشہور کرکٹروں نے پاکستانی بولروں کی کارکردگی کو سراہا ہے اور اسے کھیل کی دنیا کا سب سے خطرناک بولنگ اٹیک قرار دیا ہے۔

اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر سفر شروع کیا۔ سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہارا ساتھ ہی اگلے میچ میں کمزور زمبابوے سے غیرمتوقع شکست کا زخم سہنا پڑا۔ اس اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کردیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا لیکن اسی فضا میں قومی ٹیم نے اپنی محنت اور دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور بلاشبہ پوری ٹیم کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔

ٹورنامنٹ اب ختم ہوچکا ہے۔ ٹرافی نہ جیتنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن یہ کم نہیں کہ ہماری ٹیم دنیا کی 16 ٹاپ کرکٹ ٹیموں میں سے دوسری بہترین ٹیم ہے جس نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ جہاں لوگ قومی ٹیم کی ستائش کر رہے ہیں وہیں ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کے لیے وہی آوازیں دوبارہ بلند ہونے لگی ہیں جو سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے سے قبل سنائی دے رہی تھیں۔

دیکھنا چاہیے کہ فتح اور شکست کی نوعیت کیا ہے۔ شرم ناک شکست وہ ہوتی ہے جہاں سپاہی لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں لیکن جہاں مقابلہ برابر کا ہو وہاں فتح و شکست نہیں جذبہ دیکھا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم آخری لمحے تک جیت کے لیے جان لڑاتی نظر آئی۔

اس ٹورنامنٹ سے ہمیں محمد حارث جیسا جارح مزاج بلّے باز ملا جس نے جنوبی افریقہ کے اہم میچ میں فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کے ہم نام حارث رؤف اپنی ایک شناخت بنائی اور امید ہے کہ جس طرح 1992ء کے ورلڈ کپ میں نو آموز انضام الحق، مشتاق احمد، عامر سہیل بعد میں پاکستانی کرکٹ کے اہم ستون رہے، اسی طرح آج کے نو آموز کھلاڑی بھی وقت کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ بلاجواز تنقید کے بجائے تعمیری رویّہ اپناتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کمزوریوں کودور کرنے کی بات کی جائے۔

سب سے پہلے تو قومی ٹیم کو بیٹنگ لائن پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں‌ ایسے بہترین بلّے بازوں کی ضرورت ہے جو مستقل مزاجی سے پاکستان کے لیے رنز اسکور کریں۔ اس وقت بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی ایسا بلّے باز قومی ٹیم میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاٹ بال کھیلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ یہ اعتراف تو کپتان بابر اعظم بھی کرچکے ہیں کہ ہم نے فائنل میں بہت ڈاٹ بالز کھیلیں اور 20 رنز کم بنائے۔

ہماری ٹیم میں اس وقت شاداب خان کے علاوہ کوئی مستند آل راؤنڈر نہیں ہے۔ ہماری ٹیم کو ایسے مزید آل راؤنڈرز کی ضرورت ہے جو کسی بھی پوزیشن پر پاکستان کے لیے اچھی پرفارمنس دے سکیں۔ اکھاڑ پچھاڑ اور غیر ضروری تبدیلیوں کے بجائے ٹیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی، کیوں کہ آئندہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنی ہے۔ ایشیا کپ کے بعد اگلا بڑا مقابلہ ون ڈے ورلڈ کپ ہوگا جو بھارت میں کھیلا جائے گا اور اس کے لیے ابھی سے سوچنا ہوگا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں