The news is by your side.

2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی کا سال!

پاکستان کی سیاست میں یہ سال انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔اسے سیاسی افق پر انہونیوں، یوٹرنز اور اخلاقی قدروں کے زوال کا سال کہا جاسکتا ہے۔

2022 کا سورج طلوع ہوا تو عمران خان وزیراعظم اور شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے اور اب جب یہ سال ختم ہو رہا ہے تو شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور پی ٹی آئی ایوان سے باہر، لیکن عمران خان عملاً اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں۔

2022 میں ملک میں سیاسی افراتفری اور جو ہیجان انگیزی دیکھی گئی، موجودہ نسل نے شاید اس سے قبل نہ دیکھی ہو۔ یہ سال سیاسی افراط و تفریط کا شکار تو رہا لیکن اس دوران ایسے ایسے اسکینڈلز، اقدامات سامنے آئے کہ الامان الحفیظ۔ مسلسل آڈیو اور ویڈیو اسکینڈلز سے ایسا لگنے لگا کہ شرافت نے کوچۂ سیاست کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور بدتہذیبی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ رواں برس سیاستدان ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟‘‘ پر دل و جان سے عمل پیرا نظر آئے اور ایک دوسرے پر شرمناک الزامات لگانے میں‌ بہت آگے نکل گئے۔ اس برس تحریک عدم اعتماد، توشہ خانہ ریفرنس، آڈیو ٹیپس، سیاستدانوں کی گرفتاریاں، نیب ترامیم کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں کو ریلیف، مقدمات کا خاتمہ، عمران خان کی مقبولیت اور عسکری قیادت کی تبدیلی کا معاملہ سیاسی منظر نامے میں نمایاں رہا۔

ملک میں جہاں سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی کشمش جاری رہی وہیں عوام اس بات کے منتظر رہے کہ ہر وقت عوام کی فکر میں‌ ہلکان ہونے والے سیاستدان ان کے لیے بھی سوچیں گے لیکن عوام کا یہ خواب ہنوز خواب ہی ہے۔ رواں سال مہنگائی اور بیروزگاری نے ان پر عرصۂ حیات مزید تنگ کر دیا ہے۔

اس سال کے آغاز پر سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل چھانے لگے تھے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے عمران خان کو بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں کرتے رہے۔ پھر ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فضل الرحمٰن کی قیادت میں گٹھ جوڑ اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان نے تمام خدشات کو درست ثابت کر دیا۔

سال کا آغاز پی ڈی ایم رہنماؤں کے مہنگائی مکاؤ مارچ اور احتجاج سے ہوا۔ ن لیگ تو سرگرم تھی ہی، بلاول بھٹو مہنگائی مارچ لے کر کراچی سے اسلام آباد کے لیے عازم سفر ہوئے اور جب لانگ مارچ لے کر 8 مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوئے اور اسی روز متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ لیکن یہ کسی مذاق سے کم نہیں کہ آج جب سال اپنے اختتام پر ہے اور 13 جماعتی پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت ہے تو مہنگائی سال کے آغاز سے کئی گنا بڑھ چکی ہے اور اس کی پرواز مسلسل جاری ہے لیکن پی ڈی ایم یا ان کے سپورٹرز اس پر سیاسی بیانات تک محدودہیں جب کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کے خاتمے کے لیے کوئی موثر عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ عمران خان کو مخالفین نے مسٹر یوٹرن کا نام دیا ہے لیکن سیاسی اقدامات میں یوٹرن لینے میں پی ڈی ایم جماعتوں کے رہنما بھی پیچھے نہیں ہیں۔

پی ڈی ایم کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد ملک بالخصوص شہر اقتدار اسلام آباد میں ہر دن سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہا۔ اسی ہنگامہ خیزی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا اور یہ محض اتفاق کہ جس دن وہ روس پہنچے اسی روز روس نے یوکرین پر چڑھائی کر دی تھی، یوں غیر معمولی صورتحال میں عمران خان کا دورہ روس دنیا بھر میں موضوع بحث بھی بنا۔

قصہ مختصر عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن جماعتوں پر امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ایک ماہ تک سیاسی جوڑ توڑ اور بیرونی دباؤ کے بعد ان کی اپنی پارٹی کے 20 اراکین منحرف ہو گئے جب کہ عمران خان کے حلیف بھی پل بھر میں حریف بن گئے اور ساڑھے تین سال تک حکومت اور وزارتوں کا مزا لینے والی ایم کیو ایم اور بی اے پی راتوں رات قبلہ تبدیل کر کے پی ڈی ایم میں شامل ہوگئیں، جس کے بعد سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔

اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے تمام راستے بند ہوتے دیکھ کر عدم اعتماد روکنے کے لیے قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس صدر عارف علوی کو بھیجی۔ صدر مملکت نے بھی اس ایڈوائس پر عمل کرنے میں دیر نہ لگائی جس کے خلاف متحدہ اپوزیشن عدالت پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے رات گئے کھل کر اور الیکشن کمیشن نے آئندہ چند ماہ تک الیکشن کرانے سے معذوری ظاہر کر کے سابق وزیراعظم کی تمام تدابیر پر پانی پھیر دیا یوں انہیں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ناکامی کے بعد اقتدار سے محروم ہوئے تاہم جاتے جاتے وہ اسمبلیوں سے استعفے دے گئے جو سوائے 11 کے اب تک قبول نہیں ہوسکے ہیں۔

ایسا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرکے نیا وزیراعظم لایا گیا۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف تحاریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

اقتدار سے محرومی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور عوام میں ان کا اینٹی امریکا اور بیرونی مداخلت بیانیہ یوں سر چڑھ کر بولا اور مقبول ہوا کہ وہ ملک کے سب سے مقبول سیاسی لیڈر گردانے گئے۔ جس کا ثبوت پنجاب اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جہاں ایک طرف پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن میں 16 پر کامیابی حاصل کی وہیں کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے استعفوں سے خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن میں عمران خان نے بیک وقت 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنا ہی 5 نشستوں پر کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ان ضمنی الیکشن میں کئی حلقے ایسے بھی تھے جو موروثی سیاست کی داعی جماعتوں کے گڑھ کہلاتے تھے وہاں بھی تحریک انصاف نے 13 جماعتی اتحاد کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

وفاق میں تبدیلی کیساتھ ہی تحریک انصاف کو پنجاب حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے پر حمزہ شہباز نئے وزیر اعلی ٰ پنجاب بن گئے۔ باپ کے وزیراعظم اور بیٹے کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کو سیاسی حلقوں سمیت عوامی حلقوں میں اچھے انداز میں نہیں دیکھا گیا تاہم حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ چند ماہ ہی چل سکی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کا تاج چوہدری پرویز الٰہی کے سر سج گیا۔

سیاسی داؤ پیچ کے جاری اس طویل میچ کے دوران عمران خان خود بھی سڑکوں پر سرگرم رہے اور عوام کو بھی متحرک رکھا۔ 25 مئی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان پورا نہ ہوسکا لیکن اکتوبر کے آخر میں حقیقی آزادی مارچ کے نام سے لانگ مارچ نکالا جو لاہور سے وزیر آباد تک پہنچا تھا کہ وہاں سابق وزیراعظم کے قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں خوش قسمتی سے ان کی جان محفوظ رہی تاہم وہ اور ان کے کئی ساتھی زخمی ہوئے جب کہ ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ مرکزی ملزم گرفتار کرلیا گیا تاہم اس حوالے سے اب تک تحقیقات کے ساتھ مخالفین کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

تین ہفتے کے وقفے کے بعد عمران خان پھر متحرک ہوئے اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی لانگ مارچ راولپنڈی پہنچا تو عمران خان نے اپنے خطاب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا جو کہ تاحال نہیں ہوسکی ہیں۔ اس دوران پنجاب میں ایک بار پھر حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور گورنر نے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کردیا لیکن عدالت سے وزیراعلیٰ کو چند گھنٹوں میں ہی ریلیف مل گیا اور وہ اپنے عہدے پر بحال کردیے گئے۔

شہباز شریف کی حکومت بنتے ہی ایسا لگا کہ مہنگائی اور عوام کا درد دکھاوا تھا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی 9 ماہ کی حکومت کے دوران مہنگائی کی کوکھ سے مزید کئی مہنگائیاں جنم لے چکی ہیں۔ سال بھر عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے رہے۔ سیلاب بھی غریبوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا لیکن سیاستدان اقتدار، اقتدار کی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ حکومتی اقدامات اور پھرتیوں سے تو عمران خان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکمراں اپنے کیسز ختم کرانے آئے تھے کیونکہ موجودہ حکومت کے کریڈٹ پر اگر کوئی نمایاں کام نظر آتا ہے تو وہ نیب قوانین میں ترامیم ہیں جس کے بعد پی ڈی ایم قیادت بالخصوص، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، سلیمان شہباز، صفدر اعوان، اسحاق ڈٓار سمیت ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے کیسز سے جان چھڑا چکی ہے جب کہ مریم نواز تو ریلیف ملتے ہی لندن کوچ بھی کرچکی ہیں۔

اس سال ملک کے لیے کوئی اچھی خبر رہی ہے تو وہ پاکستان کا فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت خود لے رہی ہے اور وزیر خارجہ تو گزشتہ دنوں امریکا میں ببانگ دہل پاکستان کے فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو اپنی انتھک محنت کا ثمر قرار دے رہے ہیں، لیکن پی ڈی ایم حکومت کو شاید یاد نہیں کہ پاکستان فٹیف کی گرے لسٹ میں ن لیگ کے دور حکومت میں گیا تھا اور فٹیف نے اس درجے سے نکالنے کے لیے جو سخت شرائط عائد کی تھیں وہ 90 فیصد سے زائد پی ٹی آئی حکومت نے پوری کیں۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ عمران دور حکومت میں فٹیف سے متعلق ایک اجلاس میں موجودہ وزیر خارجہ سمیت حکمراں جماعتوں کے رہنما بائیکاٹ کر گئے تھے۔

سال ختم ہو رہا ہے تو صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے نئے الیکشن کے مطالبے کے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا فی الوقت قبل از وقت الیکشن کے اعلان کا کوئی موڈ نظر نہیں آتا۔ سال بھر میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد حکومت میں شامل تمام جماعتیں خود بھی فوری الیکشن سے فرار چاہتی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال کے باعث مشکل فیصلے کرنے کے لیے ملک میں طویل مدت کے لیے ٹیکنو کریٹ کی حکومت کی باتوں کی گردش سنائی دے رہی ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے؟

حکومت کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو آج ہر طرف پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا دیوالیہ کے قریب ہونے کی صدائیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی سرگوشیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ گیس ناپید ہوتی جا رہی ہے تو بجلی بھی رُلا رہی ہے۔ بینک ایل سیز نہیں کھول رہے، کروڑوں ڈالر کی شپمنٹس پورٹ پر پڑی سڑ رہی ہیں۔ کئی بین الاقوامی کمپنیاں کاروبار وقتی اور مستقل بند کر رہی ہیں یا سوچ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ترجیح اقتدار سے چمٹے رہنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، گھڑی کیوں بیچی، گھڑی میری مرضی میری، فلاں کی آڈیو اور ویڈیو کی ریلیز، اسمبلیوں کی تحلیل، استعفے اور بڑھکیں مارنا رہ گیا ہے۔ حکومت آرٹیفیشل اقدامات کے طور پر کبھی توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے کاروبار جلد بند کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے لیکن کیا یہ آرٹیفیشل اقدامات غربت کے سمندر میں غرق ہونے والے عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں گے کہ جن کی دسترس سے آب آٹا بھی دور ہوگیا ہے۔

زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر، ترسیلات زر کا انتہائی حد تک گرجانا اور افراط زر کا بڑھ جانا ملک کے سنجیدہ طبقے کو فکرمند کر رہا ہے جب کہ سال کے اختتام پر ملک میں بڑھتی دہشتگردی نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ہم کئی خدشات اور سر پر لٹکتی خطرات کی کئی تلواروں کے ساتھ 2022 کو الوداع اور 2023 کو خوش آمدید کہیں گے۔ دعا ہے کہ ہمارا ملک اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں