صدرِ مملکت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ (فنانس سپلیمنٹری بل 2013) کی منظوری دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلے سے مہنگائی کی چکّی میں پستے ہوئے عوام مزید بوجھ تلےدب گئےہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کا بچت پروگرام بھی پیش کیا ہے جس میں وفاقی کابینہ کے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے سمیت کئی خوش کن اعلانات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اعلانات منی بجٹ کے عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرسکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو 4 سال بیمار رہنے کے بعد بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اچانک صحت یاب ہو کر وطن واپس آئے تھے، یہاں ان کے اقدامات سے عوام کی نبض ڈوبنے لگی ہے۔ وزیر خزانہ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیں اور جب بھی آتے ہیں عوام کے لیے ان کی تقریر اور کوئی اعلان بھیانک خواب ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ ہفتے بھی ہوا۔ انہوں نے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 المعروف منی بجٹ پیش کیا جس کے ذریعے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا راستہ نکالا گیا ہے۔
غریب اور منہگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے اس بار نئے بوجھ تلے عوام کو یوں دبایا ہے کہ ان میں درد سے کراہنے کی سکت بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس منی بجٹ پر صدر مملکت کے منظوری نے گویا عوام کے زندہ درگور کیے جانے کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
دوسری طرف منی بجٹ پیش ہوتے ہی اپوزیشن اور عوامی سطح پر کیا خود حکومتی حلقوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ن لیگ کے اندر اپنے ہی وزیر خزانہ کو ہٹانے کے مطالبات کی گونج سنائی دینے لگی۔ اسی دوران ملکی اور سوشل میڈیا پر حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور مراعات پر بھی انگلی اٹھائی جانے لگی۔ یہ اس کا اثر تھا یا کچھ اور کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کی بچت کا پروگرام پیش کیا، لیکن کیا اس پر واقعی عمل بھی کیا جائے گا؟ ماضی میں بھی حکومتیں ایسے اعلانات کرتی رہی ہیں، مگر ان کے ایوانِ اقتدار سے جانے کے بعد عوام کے سامنے آیا کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی اور تمام اعلانات دھوکا اور فریب تھے۔
گزشتہ ادوار کے ان اعلانات سے قطع نظر شہباز شریف کی حالیہ پریس کانفرنس میں جو بظاہر امید افزا باتیں کی گئی ہیں، ان کے مطابق وفاقی وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ جب کہ بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور انہیں نیلام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزرا کے معاون عملے کو بیرون ملک ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام ممنوع جب کہ اندرون ملک سفر اکانومی کلاس میں کیا جائے گا۔ ناگزیر ہو تو سرکاری افسران بیرون ملک دوروں میں شامل ہوں گے۔ تمام وزارتوں، محکموں اور ذیلی اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی۔ جون 2024 تک تمام پرتعیش اشیا، ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری اور کابینہ اراکین پر لگژری گاڑی استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین یا حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں ہوگا، دو سال تک کوئی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا، سرکاری تقریبات میں سنگل ڈش پر اکتفا کیا جائے گا، تاہم غیر ملکی مہمانوں کی شرکت کی صورت میں یہ پابندی نہیں ہوگی۔
وزیراعظم نے گرمیوں میں بجلی اور گیس کی بچت کیلیے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ، مارکیٹیں رات ساڑھے 8 بجے تک بند نہ کرنے پر ان کی بجلی منقطع کرنے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافے سمیت کئی دیگر اعلانات بھی کیے۔ یہ سب اعلانات قابلِ ذکر ہیں مگر کیا 170 ارب روپے کے بجٹ کی صورت گرائے گئے مہنگائی کے ایٹم بم کے اثرات سے غریب عوام بچ سکیں گے اور انہیں کوئی ریلیف ملے گا؟ اس کا رد تو خود وزیراعظم کے اپنی پریس کانفرنس میں ادا کردہ ان جملوں سے ہورہا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ’’غربت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے پر یقیناً مہنگائی ہوگی کیونکہ جو شرائط طے کی ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہے۔ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکسز بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں۔‘‘
حکومت کا یہی کہنا ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا گیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جی ایس ٹی جو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے کیا وہ غریب ادا نہیں کرتا؟ وزیراعظم کے غریب پر بوجھ نہ ڈالنے والی بات کے غبارے سے ہوا تو ایف بی آر کی وہ دستاویز ہی نکال دیتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون سی اشیاء ہیں جو مہنگی ہوں گی، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس فہرست میں ایسی کیا چیز رہ گئی جو مہنگی نہیں ہوگی۔ ٹیکس کی کوئی بھی شکل ہو اور وہ کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی پر عائد کیا جائے، اس کا بوجھ ہمیشہ عوام ہی پر پڑتا ہے۔
دستاویز کے مطابق اس منی بجٹ کی منظوری اور اطلاق کے بعد کولڈ ڈرنکس، مشروبات، ڈبہ پیک فروٹ جوسز، شوگر فری جوسز، ڈبہ پیک دیگر اشیا میں خوردنی تیل، بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز، بچوں کے کھلونے، سگریٹ، چاکلیٹ، ٹافیاں، خواتین کے میک اَپ کا سامان، شیمپو، کریم، لوشن، صابن، ٹوتھ پیسٹ، ہیئر کلر، ہیئر جیل، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم اور شیونگ بلیڈز تک کے دام بڑھ جائیں گے۔ کیا یہ سب اشیا ملک کے غریب عوام استعمال نہیں کرتے یا یہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی ہی ضرورت ہے؟
شادی ہالز اور ہوٹلوں پر ایڈوانس ٹیکس لگا ہے۔ اس کی وصولی شادی ہال مالکان صارفین سے ہی کریں گے اور ان میں اکثریت متوسط طبقے کی ہو گی۔ موبائل فونز پر ٹیکس بڑھنے سے بھی غریب ہی متاثر ہوں گے۔ اسٹیل کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں تعمیراتی صنعت جو پہلے ہی برے حال میں تھی، اس پر مزید برا اثر پڑے گا۔ سیمنٹ پر فی کلو ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے دعوے کو لمحہ بھر کے لیے درست مانا جائے تو سوال تو اٹھے گا کہ ملک میں کیا صرف امرا کے بنگلے اور کوٹھیاں بنتے ہیں؟ کیا غریب ایک دو کمرے کے گھر اور فلیٹ نہیں بناتے؟
اس منی بجٹ کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میں 16 سے 113 فیصد اضافے تک کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے جب کہ بجلی کی قیمتیں بھی مرحلہ وار بڑھائی جائیں گی۔ یہ تو گرانی کے وہ منفی اثرات ہیں جو عوام مستقل برداشت کریں گے جب کہ آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر سطح پر ہونے والی مہنگائی، بجلی کے بلوں میں ہر ماہ کبھی فیول تو کبھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھاری وصولی کا سلسلہ تو جاری ہی رہتا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق حکومتی نااہلی اور کوتاہیوں کا بوجھ عوام برداشت کریں گے۔
اکثر ماہرینِ معیشت یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اگر وفاقی وزیر دفاع کے بیان پر یقین کیا جائے جو انہوں نے سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران دیا تو ’’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس بیان کی وضاحت وزیر خارجہ کو بیرون ملک یہ کہہ کر کرنی پڑی کہ پاکستان کے دیوالیہ کرجانے کا وزیر دفاع کا بیان سیاسی بیان ہے۔ بہرحال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ جانے والا پاکستان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ رکھتا ہے جب کہ معاشی طور پر خوشحال اور ہم سے کہیں بڑی آبادی والے ممالک کی کابینہ اراکین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
اس وقت ملک میں 87 رکنی وفاقی کابینہ ہے جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار سے زائد اراکین ہیں۔ ان عوامی نمائندوں پر غریب عوام کی جیب سے کتنا خرچ ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس عوام کو 5 کروڑ روپے کا پڑتا ہے۔ اجلاس جاری رہنے پر ہر رکن کو روزانہ کنوینس الاؤنس 2000، ڈیلی الاؤنس کی مد میں 4800، ہاؤسنگ الاؤنس کے 2 ہزار جو یومیہ 8800 بنتے ہیں۔ فری ٹریول اس کے علاوہ ہے۔
ایک رکن قومی اسمبلی عوام کو ماہانہ 2 لاکھ 70 ہزار میں پڑتا ہے جس میں ان ممبران کو بنیادی تنخواہ کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے، اعزازیہ 12700، سنچوری الاؤنس 5000 ، آفس مینٹیننس 8000 روپے، ٹیلیفون الاؤنس 10، ایڈہاک ریلیف کی صورت 15 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فری ٹریول ہے۔ مفت سفر کے مد تین لاکھ کے سفری واؤچر یا 90 ہزار روپے کیش بھی سالانہ دیا جاتا ہے۔ بزنس کلاس کے ہر سال ریٹرن 25 ٹکٹ بھی ان کے حلقہ انتخاب سے قریبی ایئرپورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں رہائش، 1300 کار، 300 لیٹر پٹرول ان تمام مراعات کے علاوہ، تخفیف یا والی چیزیں یہ تھیں کیونکہ پارلیمنٹ میں جو لوگ موجود ہیں وہ سب یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔
جب یہ اراکین پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہتے تب بھی گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی میڈیکل سہولیات، خود اور اہلیہ کے لیے بلو پاسپورٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ملک کے غریب عوام 503 ارب روپے سالانہ اشرافیہ کی پنشن کی مد میں بھی ادا کر رہے ہیں۔
وزیراعظم کے تمام خوش رنگ اور امید افزا اعلانات سر آنکھوں پر لیکن اشرافیہ کی مراعات میں تخفیف یا پابندی کے لیے انہوں نے حکومت کی جانب سے کوئی پلان نہیں دیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی وہ شرائط جو غریب کا گلا گھونٹنے کے لیے ہوتی ہیں ہر دور حکومت میں انہیں فوری طور پر اور من وعن تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن یہی آئی ایم ایف جب بیوروکریٹس کے اثاثہ جات پبلک کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ ہمارے ساست داں اور حکومتیں عوام کی خیر خواہ ہونے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اس ملک کی اشرافیہ کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر یہ سسلسلہ آخر کب تک چلے گا؟