The news is by your side.

مہنگائی’’ملکی مفاد‘‘ میں، عوام جائیں بھاڑ میں!

پاکستانیوں کی اکثریت غریب و متوسط طبقے پر مشتمل ہے جو ہر روز مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں۔ منگل کو حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یک دَم لگ بھگ 20 روپے کا اضافہ کردیا۔ اس کا اعلان وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کیا اور اس دھماکے دار اعلان کے اختتام پر یہ کہہ کر گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی کہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’کم سے کم‘‘ اضافہ کیا جا رہا ہے۔

پاکستانیوں کو عرصۂ دراز سے بالخصوص موجودہ دورِ حکومت میں کسی روز راحت اور چین کی نیند نصیب نہیں ہوئی اور اس بے سکونی کو حکمراں طبقہ آئے روز مہنگائی میں اضافہ کر کے مزید بڑھا ہی رہا ہے۔ مہنگائی سے بے حال عوام چند دن قبل ہی بجلی کی قیمتوں میں شتر بے مہار اضافے اور جلد گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی خبر سے پہلے ہی پریشان تھے کہ ان پر ’’ملکی مفاد‘‘ میں پٹرول بم گرا دیا گیا۔ یہ جانے بغیر کہ غریب آدمی اس قدر مہنگائی میں کس طرح زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ سکتا ہے۔

قصور ہمارے حکمرانوں کا بھی نہیں۔ ان کا تعلق اس طبقے سے ہے ہی نہیں جہاں چند ہزار کمانے والا اپنی جیب سے آٹا، تیل، گھی، چینی، پٹرول خریدتا، ٹرانسپورٹ کے بڑھتے کرائے برداشت کرتا، صرف ایک بلب اور پنکھا جلا کر ہزاروں روپے بل دیتا ہے۔ بیمار ہو جائے تو حسبِ استطاعت اپنے ہی خرچ پر علاج کراتا اور جب یہ بھی دستیاب نہ ہو تو صبر کے گھونٹ پی کر موت کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ ہمارے حکمراں طبقے کا تعلق تو اس اشرافیہ سے ہے جن کی تنخواہ تو لاکھوں میں لیکن نہ انہیں بجلی، گیس، فون کے بلوں کا جھنجھٹ برداشت کرنا پڑتا ہے نہ علاج کے لیے فکر مند ہونا پڑتا ہے کیونکہ غریبوں کے پیسوں پر یہ مراعات انہیں مفت میں حاصل ہیں۔ تو جب درد ہی نہ ہو تو درد کا احساس کیونکر ہوگا۔

پرانے پاکستان کے داعی حکمرانوں نے جس حساب سے بجلی کی قیمت بڑھائی ہے لگتا ہے کہ عوام کو جلد ہی قدیم پاکستان یعنی لالٹین والے دور میں لے جائے گی کیونکہ بجلی کی قلت پہلے ہی ہے۔ اس پر مہنگی بجلی نے مرے کو سو دُرّے اور لگا دیے ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ’’میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘‘ کے عنوان سے اشتہار چلتا تھا اور حقیقت تھی کہ جب کہیں بجلی آتی تھی تو لوگ ٹمٹاتا پیلا بلب دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے اور یہ خواہش کرتے تھے کہ کبھی ہمارے گھر آنگن بھی اس سے منور ہوں گے۔ اگر انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ مستقبل میں ان کے بچّے بجلی کے بل دیکھ کر ذہنی مریض بن جائیں گے یا خودکشی پر مجبور ہوں گے تو کبھی وہ یہ خواہش دل میں نہ پنپنے دیتے۔ آج غریب تو کیا تیزی سے ختم ہوتا متوسط طبقہ بھی بجلی کا بل دینے اور سولر لگوانے کی سکت نہیں رکھتا تو ایسے میں وہ کرے تو کیا کرے۔

ایک جانب حکومت ملک بھر میں لیپ ٹاپ تقسیم کرکے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے تو دوسری جانب جس سے یہ لیپ ٹاپ چلے گا یعنی بجلی اس کو تین سے ساڑھے سات روپے فی یونٹ مہنگا کر کے خود ہی عوام کی دسترس سے دور کر رہی ہے۔ اس عالم میں‌ نوجوان کیسے تعلیم یافتہ بنے گا اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔ پی ڈی ایم حکومت کے وزیر اعظم سمیت تمام نمائندے عوام کی حالت زار پر اپنی ہر تقریر میں پی ٹی آئی کی حکومت پر لعن طعن ایسے کر رہے کہ جیسے انہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں ملک میں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہوں جب کہ اس کے برعکس اس حکومت نے جو روکھی سوکھی غریبوں کو دستیاب تھی وہ بھی ان سے چھین لی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اپنی ہر تقریر میں ملک کے موجودہ بدترین معاشی حالات کی تمام تر ذمے داری پی ٹی آئی حکومت پر ڈالنے کے بعد یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ’ہمیں ملک بہت بری حالت میں ملا، ڈیفالٹ کا خطرہ تھا راتوں کو نیند نہیں آتی تھی اگر ڈیفالٹ کر جاتا تو قیامت تک میرے چہرے پر دھبا لگ جاتا، ناک رگڑ رگڑ کر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا‘ اگر یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں تو پھر اس نازک ترین معاشی صورتحال میں بھی حکمرانوں اور اشرافیہ کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں کیوں ختم نہیں ہو رہیں؟

دو ماہ قبل سینیٹ چیئرمین (سابق، موجودہ اور آئندہ) کی مراعات میں اضافے سے عوام کے زخموں پر کم نمک چھڑکا تھا کہ دیوالیہ اور معاشی بدحالی کے ترانے پڑھتی حکومت کے دور میں پنجاب کی بیورو کریسی کو کروڑوں کی نئی گاڑیاں دینے کی منظوری دے دی گئی اور اس کے لیے آناً فاناً 3 ارب 20 کروڑ روپے بھی جاری کر دیے گئے۔ وزیراعظم یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا اور ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے جو اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا ہے وہ ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچنے والے ممالک سے کیا جاتا ہے۔

وزیراعظم کا یہ دعویٰ سر آنکھوں پر کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔ جناب ضرور ایسا ہوا ہوگا لیکن اس کے لیے عوام پر جو شکنجہ کسا گیا اس سے ملک ڈیفالٹ کرے نہ کرے لیکن غریب سفید پوش انسان ڈیفالٹ کر چکا ہے کیونکہ دیوالیہ تو وہی ہوتا ہے جس کی آمدنی کم اور خرچ زیادہ اور مسلسل بڑھتے ہوئے ہوں۔ روز افزوں مہنگائی اور ناموزوں حالات کے باعث چھوٹا کاروباری طبقہ تو پہلے ہی تباہ ہو چکا مگر سب سے برا حال تنخواہ دار طبقے کا ہے جو اپنی تنخواہ سے پیشگی ٹیکس کٹوانے کے بعد بسکٹ اور سوئی سے لے کر ہر چیز پر ٹیکس در ٹیکس کی زد میں ہے۔ اس کی تنخواہ سالوں پرانی لیکن خرچے کئی گنا بڑھ چکے ہیں جب کہ مہنگائی کا دیو مسلسل منہ کھولے انہیں نگلنے کے تیار ہے۔

آج یہ عالم ہے کہ عوامی سطح پر ہر سُو مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ بالخصوص نوجوان طبقہ اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید متفکر ہے اور ڈپریشن کا شکار ہورہا ہے۔ یہی مایوسی ہے کہ وہ والدین جو اپنی آنکھ کے تاروں کو نظروں سے دور کرنے کا سوچتے بھی نہیں تھے وہ ان کو بیرون ملک بھیجنے کی تگ و دو میں ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں غریب اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں‌ کا کوئی مستقبل نہیں۔

عوام کی بے بسی اور مایوسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے سب سے زیادہ شہری دیارِ‌ غیر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ سوا کروڑ پاکستانی فکر معاش کے لیے مختلف ممالک میں مقیم ہیں جو کہ خطے کے دیگر ممالک بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان سے زیادہ ہے اور رواں سال کے چھ ماہ میں بیرون ملک جانے کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔

ریاست کو ماں اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں عوام خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور ریاست اپنے عوام کو ہر سرد و گرم سے بچانے کی تگ و دو کرتی ہے اور دنیا کی مہذب ریاستوں اور ممالک کا یہی دستور ہے۔ آنکھوں پر سب اچھا کی پٹی باندھے حکمرانوں سے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بے شک اپنے دعوؤں کے مطابق عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں مت نکالیں مگر عوام کی زندگی کو سہل بنا کر ان کو جینے کا حق تو دیں کیونکہ ملک اور معاشرہ زندہ انسانوں پر مشتمل ہوتا ہے، مردہ انسانوں کے لیے تو قبرستان ہوتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں