The news is by your side.

ایشیا کپ: صرف ایک غلطی اور بدترین شکست!

آئی سی سی کی رینکنگ میں پاکستان ’’ون ڈے ٹیم‘‘ نمبر ون، کپتان بابر اعظم عالمی سطح کا نمبر ایک بیٹر، مخالف بلے بازوں پر قہر ڈھاتا بولنگ ٹرائیکا! لیکن یہ سب ایشیا کپ شروع ہونے سے قبل تھا اور صرف ایشیا کپ ہی نہیں بلکہ پاکستان اگلے ماہ بھارت میں ہونے والے آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ جیتنے کی دعوے دار ٹیموں میں شامل تھا، مگر صرف 10 روز میں صورتحال یکسر تبدیل ہوئی اور ایک غلطی نے بہترین ٹیم کو نمبر ون کی پوزیشن سے بھی محروم کردیا۔

بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم فتوحات سمیٹتی ہوئی ایشیا کپ سے قبل افغانستان کو وائٹ واش کر کے آئی سی سی رینکنگ میں جب نمبر ون پر براجمان ہوئی تو پاکستانی شائقین کرکٹ کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں اور ان کی امیدیں اپنی ٹیم سے ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے حوالے سے مزید بڑھ گئیں۔ امیدیں کیوں نہ بڑھتی جب عالمی نمبر ایک ٹیم کی کمان عالمی سطح پر نمبر ون بیٹر بابر اعظم کے ہاتھ میں، بیٹنگ لائن میں آئی سی سی بیٹنگ رینکنگ کے ٹاپ ٹین میں شامل فخر زمان، امام الحق ہوں۔ بولرز میں ٹاپ فائیو میں موجود اسٹار شاہین شاہ کے ساتھ جب حارث رؤف اور نسیم شاہ کا ٹرائیکا ہو تو کاغذ پر تو اس سے تگڑی کوئی ٹیم ہی نہیں تھی۔

ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں جب گرین شرٹس نے کمزور نیپال کو بہت بڑے مارجن سے ہرایا اور پھر اگلے میچ میں روایتی ٹیم بھارت کو 266 رنز پر ڈھیر کیا تو یہ امیدیں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں اور ساتھ کھلاڑیوں کا اعتماد بھی لیکن لگتا ہے کہ یہی اعتماد ایسی خوش فہمی بنا کہ پھر تنزلی کی جو شرمناک کہانی رقم ہوئی اس نے آج پاکستان ٹیم کی کارکردگی کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ کی ورلڈ کپ کی تیاریوں کا پول بھی کھول کر رکھ دیا۔

ایشیا کپ میں پاکستان صرف ہوم گراؤنڈ پر کمزور ترین نیپال اور اپنے سے انتہائی کم رینک ٹیم بنگلہ دیش سے جیت سکی یعنی جو ہم اکثر روایتی حریف کے لیے ’’گھر کے شیر باہر ڈھیر‘‘ کی مثال استعمال کرتے ہیں اسے گرین شرٹس نے حرف بہ حرف درست ثابت کیا۔ ایونٹ کے پہلے پاک بھارت ٹاکرے میں اگرچہ پاکستانی بولرز نے روایتی حریف کو 266 پر زیر کرلیا تھا لیکن میری رائے میں بارش نے پاکستان کو بچا لیا ورنہ سری لنکا میں ٹیم کی مجموعی کارکردگی دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ میچ بھی ہاتھ سے گیا تھا۔

ایشیا کپ میں ٹیم کا اصل زوال سپر فور کے پاک بھارت مقابلے سے ہوا جہاں ماہرین کی رائے کے برعکس بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا جو انتہائی برا ثابت ہوا اور بارش کے باعث دو روز میں مکمل ہونے والے میچ میں پاکستانی بولر صرف دو وکٹیں ہی اڑا سکے جب کہ بھارتی بلے بازوں نے 357 پہاڑ جیسا ہدف دیا جس کو دیکھتے ہی گرین شرٹس کے ایسے اوسان خطا ہوئے کہ پوری ٹیم 128 رنز پر ڈھیر ہو کر 228 رنز کی تاریخی شکست سے دوچار ہوگئی۔ یوں وہ ٹیم جس نے ایشیا کپ کے گروپ میچز میں 4.76 کی بھاری اوسط سے ٹاپ پر رہنے کا مزہ چکھا وہ سپر فور مرحلے میں بنگلہ دیش سے بھی نیچے چوتھے نمبر پر سب سے آخر میں پہنچ گئی۔

اس کو بدقسمتی کہیں گے کہ ایشیا میں حریف بلے بازوں کو نکیل ڈالنے والے نسیم شاہ اور حارث رؤف پاک بھارت کے اہم میچ میں ان فٹ ہوئے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کے کسی بھی بڑے ایونٹ میں ٹیم کی مجموعی بدترین ناکامی کے لیے اس کو جواز نہیں بنایا جا سکتا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ ون ڈے ورلڈ کپ سر پر ہو اور اس کے انعقاد میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہو تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ کرکٹ میں انجریز خاص طور پر بولرز کے کیریئر میں چولی دامن کا ساتھ رکھتی ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم منیجمنٹ نے ان کھلاڑیوں کا بیک اپ کیوں نہ رکھا جب کہ ورلڈ کپ میں شریک ہونے والی ہر چھوٹی بڑی ٹیم ہر پوزیشن کے کھلاڑی کے بیک اپ کے ساتھ ہے۔

کرکٹ کے بڑے ایونٹ میں دنیا کی بڑی پروفیشنل ٹیمیں ہمیشہ اسپیشلسٹ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں تاکہ ہر کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کے مطابق 100 فیصد کارکردگی دکھائے اور مڈل اوورز میں جہاں ضرورت ہو اپنی ٹیم کو مخالف کی وکٹیں لے کر بریک تھرو دلائیں جیسا کہ سری لنکن نوجوان ڈنتھ ویلالگے، بھارتی اسپنر کلدیپ یادیو ہیں جو بولنگ کے لیے جاتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ بیٹنگ کے لئے جا کر بھی مجھے تیس چالیس رنز کرنے ہیں بلکہ ان کا پورا فوکس بولنگ پر ہوتا ہے اور اگر بیٹنگ میں ان کا بلا چلے تو یہ ان کی ٹیموں کے لیے بونس ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ معاملہ الٹ ہے یہاں خاص طور پر کچھ عرصے سے اسپنرز کے معاملے میں آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مترادف آل راؤنڈرز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ہم نے اسپیشلسٹ اسپنرز جیسا کہ اسامہ میر، ابرار احمد کو ٹیم میں شامل نہ کیا اور آؤٹ آف فارم شاداب خان کے علاوہ محمد نواز کو صرف اسپیشلسٹ اسپنر سے زیادہ آل راؤنڈر کے طور پر کھلایا گیا جس کا نتیجہ ایشیا کپ میں ظاہر ہو گیا کہ جہاں تمام ٹیموں کے اسپنرز نے جال بچھا کر حریفوں کو پھنسایا لیکن پاکستانی اسپنرز حال سے بے حال رہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف اہم ترین میچ میں 42 اوورز میں 252 رنز کے معقول ہدف کا دفاع کرنے میں ناکام رہے اور فیورٹ ٹیم خالی ہاتھ باہر ہوگئی۔

آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مثل ہمارے اسپنرز اور اسپیشلسٹ اسپنرز کی کارکردگی کا جائزہ اس بات سے لیا جا سکتا ہے کہ سری لنکا کے ویلالاگے اور تھیک شانا نے حریفوں کی ایک نہ چلنے دی۔ ویلالاگے نے 10 اور شانا نے 8 وکٹیں اڑائیں خاص طور پر بھارت کے نوجوان ویلالاگے نے بڑے ناموں والے ٹاپ آرڈر سمیت 5 بلے بازوں کو پویلین بھیج کر واہ واہ سمیٹی۔ بھارت کے کلدیپ یادیو نے تو تین اننگ میں ہی 9 شکار کر کے پاکستان اور سری لنکا کی بیٹنگ لائن اکیلے ہی تہس نہس کر ڈالی۔ مگر بات کریں پاکستانی اسپنرز کی تو وہ بیٹرز کا شکار کرنے کے بجائے خود مخالف بلے بازوں کا ٹارگیٹ بنے رہے۔ شاداب خان نے 4 اننگ میں 6 وکٹیں لیں جس میں چار وکٹیں تو کمزور ترین ٹیم نیپال کے خلاف تھیں۔ ان وکٹوں کے لیے شاداب نے مخالفین کو کھل کر رنز بنانے کا موقع دیا اور ان کی اکانومی 6 سے بھی زیادہ رہی۔ نواز بھی کچھ نہ کر سکے۔ ایونٹ کے تین میچ کھیلے لیکن ہاتھ صرف ایک وکٹ آئی۔

ہمارے مین اسٹرائیک بولر ان فٹ تو ان کا بیک اپ نہیں، دھانی کو بلایا جو پاکستان کے ایونٹ سے باہر ہونے کے بعد بغیر کھیلے ہی وطن واپس لوٹے لیکن ان کے انتخاب پر شائقین سوال کر رہے ہیں کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ دوسری جانب نسیم شاہ اور حارث رؤف کی جگہ لینے والے وسیم جونیئر اور زمان خان کو موقع دیا گیا لیکن نہ وسیم موقع سے فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی زمان خان اپنے ڈیبیو کو یادگار بنا سکے۔ زمان خان نے ڈیتھ اوور میں اچھی بولنگ ضرور کی لیکن وہ اپنے پیشرو نسیم شاہ اور حارث رؤف کی جگہ پُر کرنے والے سری لنکن بلے بازوں کو خوفزدہ نہ کرسکے اور جب ٹیم کو ضرورت تھی اس وقت بریک تھرو نہ دے سکے۔

اب جب کہ نسیم شاہ کی کاندھے کی انجری کے باعث پورے ورلڈ کپ میں شرکت مشکوک ہوگئی ہے۔ شاہین شاہ ردھم میں نہیں ہیں۔ اسپنرز بھی نہیں چل پا رہے اور بیٹنگ کا یہ حال کہ کبھی چل گئے تو چل گئے ایسے میں ورلڈ کپ جیتنے کا خواب ’’دیوانے کا خواب‘‘ ہی دکھتا ہے۔

اس شکست کے ساتھ ہی جس ٹیم کی ایک ہفتہ قبل تعریفیں کی جا رہی تھیں اب وہ کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ سابقہ قومی کرکٹرز سمیت غیر ملکی کرکٹرز بھی بابر اعظم کی کپتانی پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ حسب روایت شکستوں کے بعد ٹیم میں اختلافات اور ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کی مبینہ تلخ کلامی کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں جب کہ شائقین کرکٹ کی جانب سے ماضی کی طرح اس بار بھی راتوں رات ٹیم اور قیادت میں تبدیلی کی بات کر رہے ہیں جو کہ ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے پیش نظر ممکن نہیں ہے جو کہ ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے پیش نظر ممکن نہیں ہے۔ پاکستانی کوئی میچ جیتنے پر کھلاڑیوں کو اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں تو ہار پر تنقید کرنا جائز بنتا ہے۔ اس پر جز بز ہونے کے بجائے پی سی بی انتظامیہ اور ٹیم اپنا قبلہ درست کرے۔

قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر شائقین کرکٹ کے دل جلے ہوئے ہیں اور وہ موجودہ ٹیم پر تنقید کے ساتھ محمد عامر، سرفراز احمد، عماد وسیم کی ٹیم میں واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں سے شاید ہی کوئی پورا ہو لیکن میدان میں جب دو ٹیمیں اترتی ہیں تو جیت ایک کا ہی مقدر بنتی ہے، اگر میدان میں مقابلہ نظر آئے تو پھر شائقین اس ہار پر غصہ نہیں ہوتے بلکہ سپورٹ کرتے ہیں جس کی مثال 2011 ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہے جو روایتی حریف سے ہارے مگر میدان میں کھلاڑی مقابلہ کرتے دکھائی دیے۔

ایک دوسرا مشورہ پی سی بی کے لیے ہے کہ ورلڈ کپ سر پر ہے اس لیے فوری بڑی تبدیلیاں تو ناممکن ہیں لیکن اب بھی ٹیم میں جس کا حق ہے اس کو کھلایا جائے اور جو ٹیم سے باہر مسلسل میدان میں کارکردگی دکھا رہے ہیں ان کو موقع دیا جائے تاکہ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم تگڑی نظر آئے کیونکہ ایشیا کپ کے نتیجے نے ٹیم کا مورال یقینا گرایا ہے جسے درست فیصلوں اور اقدامات سے بحال کیا جاسکتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں