ذرا اس شخص کا تصور کیجیے، جو گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرنے کو ہو کہ اچانک اسے دروازے پر دستک سنائی دے۔ ایک غیرمتوقع دستک۔ بھلا کون اس سے ملنے آیا ہوگا؟ اس کا تو کوئی دوست ہے، نہ ہی کوئی رشتے دار؟
وہ دروازہ کھولتا ہے، سامنے ایک حسین عورت کھڑی ہے، جس کی دل کشی اسے مبہوت کر دیتی ہے۔ اسے یوں لگتا ہے کہ یہ عورت قدرت نے اس کی جان بچانے کے لیے بھیجی ہے۔ وہ عورت اس کی پڑوسی ہے، جو آج ہی اپنی بیٹی کےساتھ، اس کے برابر والے فلیٹ میں شفٹ ہوئی ہے اور اس سے مدد مانگے آئی ہے۔
یہ فلم “جانِ جاں” کے آغاز پر ایک منظر ہے، جو گزشتہ دنوں نیٹ فلیکس پر ریلیز ہوئی ہے۔ یہ فلم سن 2005 میں شایع ہونے والے مقبول جاپانی ناول The Devotion of Suspect X کا ہندی روپ ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں اس ناول کو جاپانی، کورین اور چینی زبانوں میں فلم کے قالب میں ڈھالا جاچکا ہے۔ عام خیال ہے کہ اجے دیوگن کی مشہور مسٹری تھرلر “دریشم” اسی ناول سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ “جانِ جاں” کے ہدایت کار سوجوی گوش ہیں، جو ماضی میں “کہانی” اور “بدلہ” جیسی مسٹری تھرلرز بنا چکے ہیں۔
فلم “جان جاں” ایک سرسبز و شاداب، چھوٹے سے پہاڑی قصبے کالمپونگ کی کہانی ہے۔ پچاس ہزار آبادی کے اس قصے میں لگ بھگ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اس فلم میں کرینہ کپور مایا ڈی سوزا کا کردار نبھا رہی ہیں۔
مایا ایک ٹین ایجر لڑکی، تارا کی ماں ہے۔ ایک غیرمقامی عورت، جو چند برس قبل کالمپونگ آئی اور اب یہاں ایک ریسٹورنٹ چلاتی ہے۔ اس کے پڑوس میں ایک اسکول کا استاد نیرن ویاس مقیم ہے۔ ایک ریاضی کا ماہر، جو پورے قصبے میں ٹیچر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گو سب اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مگر اس کا اپنا کوئی نہیں۔ وہ ایک تنہا، کم گو اور اپنی دنیا میں رہنے والا شخص ہے، جس کے بال مسلسل گر رہے ہیں اور وہ ہمہ وقت ہیرٹرانسپلانٹ کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ گو نیرن ویاس باقاعدگی سے جوڈو کراٹے کی مشق کرتا ہے، مگر اپنی اصل زندگی میں خال خال ہی اپنے خول سے باہر آتا ہے۔ یہ دل چسپ کردار جیدیپ اہلاوت نے نبھایا تھا۔
نیرن دل ہی دل میں مایا سے محبت کرتا ہے، وہ ماں بیٹی کا خیرخواہ ہے اور خاموشی سے ان پر نظر رکھتا ہے۔ نیرن روز اسی کے ریسٹورنٹ سے لنچ لینے جاتا ہے، مگر کبھی اپنے دل کی بات نہیں کہہ پاتا۔ اور پھر ایک روز نیرن مایا کے ریسٹورنٹ میں ایک اجنبی اجیت کو دیکھتا ہے، جس کے روبرو مایا یوں اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہے، جیسے کسی بدروح کو دیکھ لیا ہوا۔
یہاں ناظرین پر انکشاف ہوتا ہے کہ اجیت ایک کرپٹ پولیس اہل کار ہے، جس نے برسوں قبل مایا ڈی سوزا کو اپنے چنگل میں پھنسا کرشادی کر لی تھی اور پھر بار ڈانسر کے پیشے میں جھونک دیا۔ مایا نے اُسے کسی طرح چھوڑ دیا اور بھاگ کر اس دور افتادہ قصبے آگئی، مگر اب وہ اس تک پہنچ گیا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی تارا کو ساتھ لے جائیں، تاکہ بازار حسن میں اُس کا سودا کر سکے۔ یہ بات مایا کو قطعی گوارا نہیں۔ اختلاف تشدد میں بدل جاتا ہے۔ فلیٹ میں ہونے والی ایک جھڑپ میں مایا اور تارا کے ہاتھوں اس آدمی کا قتل ہوجاتا ہے۔ اور یہاں سے اصل فلم کا آغاز ہوتا ہے۔
وہ ٹیچر، جو کل تک ایک کم گو اور شرمیلا انسان تھا، ایک پراعتماد ہیرو کی مانند مظلوم ماں بیٹی کی مدد کو آتا ہے۔ اس کے پاس ایک مکمل منصوبہ ہے، جس پر عمل کیا جائے، تو قانون کبھی مایا اور تارا تک نہیں پہنچ سکے گا۔
اسی اثنا میں قصبے میں انسپکٹر کرن کی آمد ہوتی ہے۔ کرن کی آمد کی اصل وجہ تو اجیت کو تلاش کرنا ہے، جو مفرور ہے، مگر پھر پولیس کو ایک سوختہ لاش ملتی ہے، جس کے بارے میں شک ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ اجیت ہی کی لاش ہے۔ اس کے بعد کرن کی آمد کا مقصد یکسر بدل جاتا ہے اور وہ اجیت کے قاتل کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ یہ کردار وجے ورما نے نبھایا ہے۔
مجموعی طور پر “جانِ جاں” ایک پرلطف فلم ہے، جس میں قدم قدم پرٹوئسٹ آتے ہیں۔ اولین شے جو آپ کو متاثر کرتی ہے، وہ اس کی لوکیشنز ہے۔ ایک چھوٹے سی قصبے کو ہدایت کار نے مہارت سے شوٹ کیا ہے۔ فلم کی ایک خوبی کردار نگاری بھی ہے۔ مایا، ورن اور کرن، تینوں ہی کردار دل چسپ ہیں۔ پھر جن اداکاروں کا انتخاب کیا گیا، انھوں نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔ جیدیپ اہلاوت کا کردار نیرن المعروف ٹیچر سب سے زیادہ مشکل اور پرپیچ تھا، جسے اداکار نے مہارت سے نبھایا۔ وجے ورما اور کرینہ کپور بھی آپ کو متاثر کرتے ہیں۔
البتہ فلم میں چند خامیاں بھی ہیں۔ کسی بڑے ناول کو فلم کا روپ دینا آسان نہیں اور یہی دقت سوجوی گوش کو بھی درپیش رہی۔ ایک ناول ہیرو کی شکست یا موت پر ختم ہوسکتا ہے، مگر فلم کے ناظر کے لیے ہیرو کی شکست کو تسلیم کرنا دشوار ہے۔ گو فلم کا اختتام ایک حد تک ناول سے مختلف رکھا گیا ہے، مگر بات نہیں بنتی۔ پھر ایک جاپانی ناول مثترکہ ثقافتی وسماجی ورثے اور جوڈے کراٹے جیسے کھیلوں کی یکساں مقبولیت کے باعث چینی اور کورین زبان میں تو سہولت سے ڈھل سکتا ہے، مگر برصغیر کے رنگ ڈھنگ سے اسے ہم آہنگ کرنا سہل نہیں۔ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک مرڈر مسٹری کا حسن یہ ہے کہ اس کے آخر میں تمام سوالات کے جواب مل جائیں، مگر “جانِ جاں” چند سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہتی ہے۔
سقم کے باوجود “جان جاں” ایک ایسی فلم ہے، جسے دیکھنا فلم بین کے لیے بہ ہرحال فائدہ کا سودا ہے۔ ناظرین کو یہ فلم باکمال اداکاروں، دل کش لوکشن اور قتل کی دل چسپ تفتیش کے لیے ضرور دیکھنی چاہیے۔