The news is by your side.

ورلڈ کپ کا طبل جنگ بجنے کو ہے ، پاکستان کیا حکمت عملی اپنائے؟

کرکٹ، دنیا میں فٹبال کے بعد سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے اور ہر چار سال بعد کرکٹ کی ٹیموں کے مابین عالمی مقابلہ شائقین کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ آئی سی سی کا اہم ایونٹ ایک بار پھر اپنے تیرھویں ایڈیشن کے ساتھ رنگ جمانے کو تیار ہے اور ورلڈ کپ 2023 کا طبل جنگ بجنے میں چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ 5 اکتوبر سے احمد آباد میں دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مقابلے سے شروع ہونے والا یہ دنگل جب ڈیڑھ ماہ بعد اسی میدان میں ختم ہوگا تو ٹرافی کون سی ٹیم کا خوش قسمت کپتان اٹھائے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس بار کوئی نیا عالمی چیمپئن آتا ہے یا پھر کچھ نئے ریکارڈ بنتے ہیں۔

ورلڈ کپ سے قبل شریک تمام ٹیموں کو وارم اپ میچز کی صورت میں اپنی جانچ کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو یہ دو مواقع نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے مضبوط حریفوں کے ساتھ میچز کی صورت ملے جو بدقسمتی سے زیادہ ہماری بے دانت شیر کے ’’خالی خولی خطرناک بولنگ اٹیک‘‘ کی بدولت انجام کار ہماری ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔

صرف دو ہفتے قبل تک پاکستان کا بولنگ اٹیک دنیا کا خطرناک ترین بولنگ اٹیک مانا جاتا تھا جن کا سامنا کرنے سے دنیا کے بڑے بڑے بلے باز کتراتے تھے لیکن ایشیا کپ میں خراب پرفارمنس اور نسیم شاہ کی خطرناک کاندھے کی انجری کے باعث یہ خطرناک اٹیک اب مخالفین کے رحم و کرم پر آگیا ہے۔ جس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان بے دانتوں کے شیر سے اب کوئی حریف بلے باز ڈرنے کو تیار نہیں بلکہ مرنے اور مارنے کے لیے پوری طرح آمادہ ہوچکا ہے۔

حریف کو رنز نہ دے کر ہیجان میں مبتلا کرنے اور غلطی کرا کے وکٹیں لینے والے پاکستانی بولرز ایسے بے اثر ہوئے کہ اب وہ وکٹیں لینے کے بجائے رنز لٹانے لگے ہیں جس کا بخوبی اندازہ ورلڈ کپ کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف دو وارم اپ میچز کے نتائج سے ہو جاتا ہے جس میں پاکستانی بیٹنگ تو چلی لیکن بولرز کی رنز دینے کی سخاوت نے قومی ٹیم کی نیا پار نہ لگنے دی۔

پہلے وارم اپ میچ میں پاکستانی بیٹرز نے رضوان کی سنچری اور کپتان بابر اور سعود شکیل کی نصف سنچریوں کی بدولت اسکور بورڈ پر 345 رنز کا بڑا ہدف سجایا جس کو ہمارے ورلڈ کلاس بولنگ اٹیک نے کیویز کے لیے اتنا آسان بنایا کہ انہوں نے 6 اوورز قبل ہی 5 وکٹوں سے شاندار فتح اپنے نام کی۔ دوسرے میچ میں سامنا تھا کینگروز کا جنہوں نے پہلے بیٹنگ کی اور چاروں طرف میدان میں کھل کر کھیلا یوں وہ شاہین شاہ، شاداب خان، حارث رؤف، وسیم جونیئر، حسن علی، محمد نواز جیسے ناموں کے سامنے 7 وکٹوں پر 351 رنز بنا گئے جس کے جواب میں پاکستانی ٹیم 337 رنز پر ہمت ہار کر آسٹریلیا کو 14 رنز سے جیت کا تحفہ دے دیا۔

ہمارے ان ورلڈ کلاس بولرز نے 2 میچوں میں 13 وکٹیں لے کر ریکارڈ 697 رنز بنوا دیے جب کہ بیٹرز نے پھر بھی لاج رکھ لی اور دونوں میچز میں مجموعی طور پر 16 وکٹیں گنوا کر 373 رنز بنائے اگر بولرز نے اپنی بھرپور کارکردگی دکھائی ہوتی تو بلے بازوں کی یہ کارکردگی یوں رائیگاں نہیں جاتی اس صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ورلڈ کپ 2023 میں اب پاکستان کی ڈوبی نیا پار لگانے کا سارا بوجھ بلے بازوں بالخصوص ان فارم کپتان بابر اعظم، محمد رضوان پر آن پڑے گا۔

نسیم شاہ کے متبادل کے طور پر بڑے دعوؤں کے ساتھ لائے جانے والے حسن علی نے دونوں میچز کھیلے لیکن ایک میں بھی ایسی کارکردگی نہیں رہی جس سے وہ اپنا ‘جنریٹر جشن’ منانے کے قابل ہوتے۔ فخر امام اور شاداب خان بھی اپنی روٹھی فارم نہ پا سکے جس سے سوالیہ نشانات اور ماتھے پر فکر کی لکیریں پڑنے کی ضرورت ہے۔

قومی ٹیم میں سب سے زیادہ اعتراض وسیم جونیئر، محمد نواز اور حسن علی کے حتمی اسکواڈ میں شامل کیے جانے اور عوامی مطالبے اور غیر ملکی لیگز میں اچھی پرفارمنس کے باوجود عماد وسیم اور سرفراز احمد کو نظر انداز کیے جانے پر کی جاتی رہیں کہ محمد عامر کی سلیکشن پر تو چیف سلیکٹر ان کی عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کو جواز بناتے ہیں۔ کئی دیگر بولرز پر ترجیح دیے جانے والے وسیم جونیئر کی گزشتہ کارکردگی اٹھائیں تو ایسی پرفارمنس نظر نہیں آتی کہ وہ میگا ایونٹ کا حصہ بننے کے لیے لازم وملزوم قرار پاتے لیکن نہ جانے ان کے پاس کیسی گیدڑ سنگھی ہے کہ ملنے والے مواقع پر خود کو ثابت نہ کرنے پر بھی ورلڈ کپ کے اسکواڈ میں جگہ بنا لی۔

ورلڈ کپ اسکواڈ کے لیے جن کھلاڑیوں کو شامل اور کچھ کو نظر انداز کیا گیا اس پر تنقید، ٹیم میرٹ سے زیادہ دوستی پر بنانے کی باتیں بھی مسلسل جاری بھی ہیں تاہم اب یہ باتیں سانپ گزرنے کے بعد لاٹھی پیٹنے کے مترادف ہے کہ جو 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان ہوا وہی اس کو کھیلے گا لامحالہ کوئی پلیئر ان فٹ ہوکر باہر ہوا تب ہی ریزرو کھلاڑیوں محمد حارث، زمان خان یا ابرار احمد میں سے کسی کو جگہ ملے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نسیم شاہ پاکستان کے بولنگ اٹیک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی بہت بڑا نقصان ہے لیکن یہ جواز میگا ایونٹ میں قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ دیگر ٹیموں کے اہم کھلاڑی بھی ان فٹ ہونے کے باعث ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے ہیں جن میں بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش جیسی تمام ٹیمیں شامل ہیں۔

ورلڈ کپ سے قبل تیاریوں کا موقع ختم ہوگیا اب 5 اکتوبر سے میدانوں میں صرف ایکشن ہوگا اور بولرز کو پاکستان کو فتح یاب کرنے کے لیے جلد فارم میں آنا ہوگا۔ 5 اکتوبر سے 19 نومبر تک 46 دن تک جاری رہنے والے اس میگا ایونٹ میں 10 ٹیمیں شریک ہیں جن میں میزبان بھارت کے علاوہ پاکستان، دفاعی چیمپئن انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور کوالیفائنگ ٹیم نیدر لینڈ شامل ہے۔ یہ پہلا ورلڈ کپ ہوگا جو دو بار کی سابقہ چیمپئن ویسٹ انڈیز کے بغیر کھیلا جائے گا جو کوالیفائنگ راؤنڈ میں بدترین کارکردگی کی وجہ سے میگا ایونٹ سے باہر ہوئی ہے۔

پاکستان کو ایشیا کپ میں حالیہ ناقص پرفارمنس کے باوجود کرکٹ ماہرین ایونٹ کی تگڑی ٹیم گردانتے رہے ہیں جس پر وارم اپ میچز کی ناکامی نے اثر ڈالا ہے لیکن اب بھی کوئی اس ٹیم کو ہلکا لینے کو تیار نہیں ہے۔

اب جب کہ ورلڈ کپ شروع ہونے میں صرف چند گھنٹے ہی باقی ہیں کوئی تبدیلی تو نہیں کچھ مشورے ہی ہیں جو قومی ٹیم کے کپتان اور انتظامیہ کے گوش گزار ہیں کہ ان پر عمل کرکے جیت کی لگن سے آگے بڑھیں تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہوگی۔

بابر اعظم کی قیادت میں قومی ٹیم اپنی مہم کا آغاز جمعے کو نیدر لینڈ جیسی چھوٹی ٹیم کے ساتھ کرے گی لیکن اسے ورلڈ کپ کے دریا کو عبور کرنے کے لیے اس دریا میں اترنے سے قبل 1992، 1999 اور 2007 کے ساتھ ساتھ 2011 کے ورلڈ کپ کو یاد رکھنا ہوگا۔

اول الذکر دو ورلڈ کپ 1992 اور 1999 فاتح ٹیموں کے کپتانوں کی جیت کی لگن اور بُرے سے بُرے وقت میں بھی ہمت نہ ہارنے بلکہ ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کی داستان رقم کرتے ہیں جس میں پاکستان 1992 میں اس وقت ورلڈ چیمپئن بنا جب کوئی اور کیا خود پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی مایوس اور ورلڈ کپ انتظامیہ گرین شرٹس کی وطن واپسی کے ٹکٹ کنفرم کرا چکی تھی لیکن پھر کپتان عمران خان کی کایا پلٹ آخری تین میچز سے قبل ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کے سامنے کی گئی یہ پرجوش تقریر کہ کیا ہوا ہم تین میچ ہار گئے تین میچ باقی بھی تو ہیں جو مسلسل جیت کر ورلڈ کپ کا فائنل کھیلیں گے اور پھر ٹرافی بھی جیتیں گے جس نے مایوس کھلاڑیوں کو نیا حوصلہ دیا اور پھر دنیا نے چارٹس ٹیبل کی سب سے کمزور ٹیم پاکستان کے کپتان عمران خان کو 25 مارچ 1992 کو ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھاتے اور نیا عالمی چیمپئن بنتے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔

1999 کا ورلڈ کپ آسٹریلیا نے مشکل صورتحال میں جیتا۔ سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کی جانب سے اپنا ایک کیچ گرائے جانے پر اسٹیو واہ نے کمال اطمینان سے یہ بات کہی کہ تم نے کیچ نہیں بلکہ ورلڈ کپ گرا دیا اور پھر ورلڈ کپ جیت کر اس کو ثابت بھی کر دیا۔ 2007 کا ورلڈ کپ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ابتدائی راؤنڈر میں بالترتیب آئرلینڈ اور بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد شرمناک ترین انداز میں میگا ایونٹ سے آؤٹ ہوگئی تھیں اور یہ تلخ یاد آج بھی کوئی پاکستانی یا بھارتی فراموش نہیں کر سکا ہے۔

2011 کا ورلڈ کپ اس لیے کہ اس میں پاکستان اور بھارت نے فائنل سے قبل سیمی فائنل میں ٹکرا کر بڑے میچ سے پہلے بڑا میچ کھیل لیا۔ پاکستان سیمی فائنل تو ہار گیا لیکن پورے ایونٹ میں ایسی لاجواب پرفارمنس دی کہ روایتی حریف سے شکست کے باوجود پاکستانیوں نے روایت کے برخلاف کھلے بازوؤں پاکستانی ٹیم کا استقبال کیا اور سب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘۔

بابر اعظم دونوں وارم اپ میچ ہارنے کے بعد یہ بات تو روایتی طور پر کہہ گئے کہ غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں گے اور یہی بات وہ ایشیا کپ اور اس سے قبل ہارنے والے میچز میں بھی کہتے رہے مگر کوئی یہ بھی بتا دے کہ وہ وقت کب آئے گا جب وہ غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ورلڈ کپ سے بڑا تو کرکٹ کا کوئی ایونٹ نہیں ہوتا اور ہوتا بھی چار سال بعد ہے اور کس کو پتہ کہ چار سال بعد وہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے ٹیم کے منظر نامے میں ہوگا یا نہیں اس لیے وقت غلطیوں سے سبق سیکھنے کا نہیں بلکہ بروقت غلطیوں کو سدھارنے کا ہے۔

ہم قومی کپتان بابر اعظم کو ورلڈ کپ میں جانے سے قبل ذکر کردہ چار ورلڈ کپ اس لیے یاد رکھنے کو کہہ رہے ہیں کہ ان سے حاصل سبق شاید تاریکی میں کچھ روشنی کا کام دے کر گرنے سے پہلے ہی سنبھلنے کا موقع فراہم کر دیں۔ رواں ورلڈ کپ میں پہلا میچ نیدر لینڈ جیسی کمزور ترین ٹیم سے ہے اور اس کو آسان لینے کا مطلب 2007 ورلڈ کپ کا ری پلے ہوسکتا ہے۔

ایونٹ میں اترتے چڑھتے حالات کیسے بھی ہوں گرین شرٹس کے کپتان 1992 اور 1999 کا ورلڈ کپ اس وقت کے قائدین کی ہمت اور حوصلے کو نظر میں رکھیں اور اسی طرح پوری ٹیم کو ساتھ لے کر ایک یونٹ بنا کر ہمت بڑھاتے اور جذبہ جگاتے ہوئے آگے بڑھیں تو پھر 1992 کی تاریخ دہرانا بھی کوئی مشکل امر نہ ہوگا۔

آخری بات ورلڈ کپ 2023 کی ٹرافی ایک اور جیتنے کی دعوے دار 10 ٹیمیں ہیں لیکن جیتنا بہرحال ایک ہی ٹیم نے ہے اور وہ بھی وہ جو آخر وقت تک اپنی صلاحیتوں کے کھل کر جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اعصاب کو بھی قابو میں رکھے گی کیونکہ جیسے جیسے یہ میگا ایونٹ آگے بڑھے گا مقابلے اور حالات کبھی سنگین تو کبھی انتہائی اعصاب شکن ہوتے رہیں گے۔ بہرحال عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز ایک ہی ٹیم حاصل کرے گی لیکن دلوں کے چیمپئن بننے کا اعزاز وہی ٹیم حاصل کرے گی جو اسپورٹس مین اسپرٹ کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے ساتھ مکمل محنت پر یقین رکھتے ہوئے صرف ایک دو میچز نہیں بلکہ پورے ایونٹ میں اپنی 100 فیصد کارکردگی میدان میں دکھائے گی پھر چاہے نتیجہ جو بھی رہے وہ ضرور دلوں کو مسخر کر لے گی کہ ایسی ٹیمیں ہی تاریخ رقم کرتی ہیں جو اگر ٹرافی ہار جائیں لیکن دل ایسے جیتتی ہیں کہ اور پھر دنیا عالمی چیمپئن کے ساتھ ان کا بھی ذکر اچھے الفاظ میں کرتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں