یہ ایک ایسی خفیہ ایجنسی کی کہانی ہے، جو اپنے پڑوسی ملک بنگلا دیش میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں وہاں کے ایک اہم لیڈر کو قتل کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا جاتا ہے۔ منصوبے کی ذمے داری ایک خاتون ایجنٹ کو سونپی جاتی ہے، جس کا کوڈ نیم “آکٹوپس” ہے۔
آکٹوپس کے پاس ایک زہریلا پرفیوم ہے، جو وہ اس شخص کو گفٹ کرتی ہے۔ مگر یہ خفیہ انفارمشین کسی طرح اس شخص تک پہنچ جاتی ہے اور وہ آکٹوپس کو قتل کر دیتا ہے۔
یہ ایک بہت بڑی ناکامی تھی، جس سے ایجنسی کے دامن پر داغ لگ جاتا ہے۔ اسی ایجنسی میں کرشنا مہرا نامی ایک خاتون افسر ہے، جو آکٹوپس کی دوست تھی۔ کرشنا مہرا اپنی دوست کی موت کا انتقام لینی چاہتی ہے، نہ صرف اس آدمی سے، جس نے آکٹوپس کو قتل کیا، بلکہ اس شخص سے بھی، جس کی وجہ سے ایک خفیہ مشن سے جڑی یہ اہم ترین انفارمیشن لیک ہوئی۔ یعنی اسے اس کالی بھیڑ کی تلاش ہے، جو اسی کی ایجنسی ہی کا حصہ ہے۔
یہ کہانی ہے گزشتہ دنوں نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی، معروف ہدایت کار وشال بھردواج کی فلم “خفیہ” کی۔
وشال بھردواج کا شمار بالی وڈ کے باکمال ہدایت کاروں میں ہوتا ہے، ان کے پیش کردہ سنیما میں کہانی سنانا کا فن عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ اس سے قبل ہم ان کے فن کا اظہار مقبول، اوم کارا، کمینے اور حیدر جیسی فلمز میں دیکھ چکے ہیں، جنھیں ناقدین کے ساتھ ساتھ ناظرین کی جانب سے بھی سراہا گیا اور وہ متعدد اعزازات کی حق دار قرار پائیں۔
زندگی کے حقائق کو معیاری موسیقی، دل چسپ پلاٹ اور باکمال اداکاروں کے ساتھ پیش کرنا وشال بھردواج کا کمال ہے۔ اسی وجہ سے امید کی جارہی تھی کہ “خفیہ” بھی ایک متاثرکن فلم ہوگی، مگر بدقسمتی سے یہ فلم ناظرین کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔
اس فلم میں ہمیں چند اہم اداکار دکھائی دیتے ہیں۔ مرکزی کردار تبو نے نبھایا ہے، جو اس سے قبل وشال بھردواج کے ساتھ مقبول اور حیدر میں کام کر چکی ہیں۔
ساتھ ہی علی فضل، اشیش ودیارتھی، اتول کلکرنی، وامیکا گبی بھی ہمیں فلم میں دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تمام آرٹسٹ فن اداکاری میں طاق ہیں اور اپنے کرداروں میں ڈھلنا جانتے ہیں۔ خفیہ میں بھی ہم انھیں ایسے کرداروں کے ملبوس میں دیکھتے ہیں، جو خاصے دل چسپ ہیں۔ یہ فوری طور پر اپنی جانب ہماری توجہ مبذول کرا لیتے ہیں، مگر بدقسمتی سے کردار نگاری میں موجود کمزوریوں کے باعث فلم اختتامی حصے میں یہ کردار ہمارے لیے بے وقعت اور غیر اہم ہوجاتے ہیں۔
فلم میں کرشنا مہرا، یعنی تبو کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل پاتی ہے، جسے ایجنسی کی کالی بھیڑ سمجھے جانے والے روی (علی فضل) کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کی ذمے داری سوپنی جاتی ہے۔ روی پر شک کرنے کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ روی کا لائف اسٹائل اس کی تنخواہ سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا، پھر وہ اکثر دفتر کی ٹاپ سکریٹ فائلز کی فوٹو کاپی بناتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ گویا شک کرنے کی معقول وجہ ہے۔
کرشنا مہرا (تبو) کو شک ہے کہ اس عمل میں اس کی بیوی بھی ملوث ہے، اس وجہ سے اس کے گھر پر آلات لگا کر اس کی نگرانی کی جاتی ہے، مگر کہانی میں تب ایک بڑا ٹوئسٹ آتا ہے، جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس جرم میں اس کی بیوی نہیں، بلکہ اس کی بوڑھی ماں ملوث ہے۔ مزید تفتیش پر پتا چلاتا ہے کہ روی امریکی ادارے سی آئی اے کے ساتھ مل کر اپنے وطن کے خلاف غداری کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کے خلاف کارروائی ہوتی، وہ اپنی نگرانی پر مامور دو ایجنٹس کو قتل کرکے اپنی ماں اور بچے کے ساتھ فرار ہوجاتا ہے۔ جب کہ روی کی بیوی چارو (وامیکا گبی) زخمی حالت میں یہیں رہ جاتی ہے۔
فلم کا دوسرا حصہ چارو کی امریکا میں روپوش اپنے شوہر اور ساس کی تلاش، اپنے بیٹے کے حصول اور ملزم روی اور اسے کے آقاؤں کی شناخت میں اپنی ملکی ایجنسی یا کہہ لیں، تبو کی معاونت پر مبنی ہے۔
اس فلم کا آغاز تو پرتجسس ہے۔ رفتار تیز ہے اور اس میں وقفے وقفے سے دل چسپ موڑ آتے ہیں، البتہ فلم آگے جا کر طوالت کا شکار ہوجاتی ہے اور صورت حال بے ربط محسوس ہونی لگتی ہے۔ فلم کے کہانی کار اور ہدایت کار پر اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کو کامیاب بنانے کا دباؤ کس قدر شدید تھا، وہ آپ فلم کے آخری حصے میں موجود غیرمنطقی صورت حال کے ذریعہ صاف محسوس کرسکتے ہیں۔ چیزوں کی سدھارنے اور بھارت کو فاتح کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں فلم منہ کے بل گر جاتی ہے اور پھر اٹھنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
مجموعی طور پر “خفیہ” باصلاحیت اداکاروں پر مبنی ایک دلچسپ فلم ثابت ہوسکتی تھی، مگر اس کی طوالت، کم زور سیکنڈ ہاف اور کردار نگاری میں موجود غفلتوں کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا اور آخر میں یہ محض ایک ایسی فلم بن رہ گئی، جسے ناظرین کے ساتھ ساتھ شاید ہدایت کار اور اس کی کاسٹ بھی جلد بھلا دینا چاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خفیہ نامی اس فلم میں کچھ بھی خفیہ نہیں۔