The news is by your side.

ورلڈ کپ: بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھارت میں جاری آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا دنیائے کرکٹ کی چار بڑی ٹیمیں ٹرافی اٹھانے کی خواہش لیے سیمی فائنل میں پہنچ گئیں اور پاکستان سمیت 6 ٹیمیں اپنی ناقص کارکردگی کے باعث اپنی اپنی قوموں کی امیدوں کو پانی میں بہا کر فائنل فور کھیلے بغیر ہی خالی ہاتھ وطن واپس لوٹ آئیں جس میں حیران کن طور پر دفاعی چیمپئن انگلینڈ بھی شامل ہے۔

اس بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن کون بنتا ہے کیا آسٹریلیا چھٹی بار ٹرافی اٹھاتا ہے یا میزبان بھارت چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے ورلڈ کپ چیمپئن بننے کا دیرینہ خواب پورا ہوتا ہے یا پھر جنوبی افریقہ خود پر لگا چوکر کا لیبل ہٹا کر کرکٹ کے نئے حکمران کے طور پر سامنے آتا ہے اس کا فیصلہ چند دن میں ہو جائے گا لیکن ہم یہاں ورلڈ کپ میں فیورٹ کے طور پر شریک ہونے والی ٹیم پاکستان کی شرمناک کارکردگی پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔

پاکستان وہ ٹیم تھی جو ورلڈ نمبر ون ٹیم اور ورلڈ نمبر ون بیٹر (بابر اعظم) اور دنیا کے خطرناک ترین بالنگ اٹیک کا ہوّا لے کر میگا ایونٹ میں شریک ہوئی تھی لیکن جس تیزی سے اس غبارے سے ہوا نکلی اس نے پوری پاکستان کرکٹ کو تماشا بنا کر رکھ دیا پورے ایونٹ میں سوائے ایک دو میچز کے کہیں پاکستانی ٹیم کے اپنے دعوؤں کی عکاسی کرتی ورلڈ کپ جیتنے کی اپروچ نظر نہیں آئی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ دیگر ٹیموں نے ماڈرن کرکٹ کھیلی جب کہ ہماری ٹیم وہی 80 اور 90 کی دہائی کی فرسودہ کرکٹ میں پھنسی رہی جہاں 250 اور اس سے زائد رنز کو بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔

پاکستان کا آغاز تو فاتحانہ رہا نیدر لینڈ اور سری لنکا کے خلاف فتوحات سے لیکن پھر انڈیا کے خلاف 191 پر جو پوری ٹیم ڈھیر ہوئی اس نے حوصلے اتنے پست کیے کہ اس کے بعد آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف شرمناک طریقے سے ہار گئی جب کہ جنوبی افریقہ سے جیتا ہوا میچ بھی ہاتھ سے گیا۔ میگا ایونٹ میں اکثر میچز میں پاکستان کی بولنگ نہیں چلی جب بولنگ چلی تو بیٹنگ جواب دے گئی جنوبی افریقہ کے خلاف تو امپائر کا ایک غلط فیصلہ ہی پاکستان کو لے ڈوبا۔ درحقیقت پاکستان کا ورلڈ کپ تو اسی وقت ختم ہوگیا تھا جب افغانستان کے خلاف نا قابل یقین اور شرمناک شکست ہوئی تھی جس پر جنوبی افریقہ کے خلاف جیتی ہوئی بازی ہار کر قومی ٹیم نے مہر ثبت کر دی تھی۔ لیکن پھر برسوں سے قائم روایت چلی اور اگر مگر کا سلسلہ چل نکلا کہ اگر یہ ٹیم جیت گئی وہ ٹیم ہار گئی تو پاکستان اس طریقے سے سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا لیکن نیوزی لینڈ کی سری لنکا کے خلاف بڑی فتح نے یہ اگر مگر کی کہانی کو بھی بریک لگایا اور جب انگلینڈ ٹاس جیت گیا تو پاکستان حتمی طور پر ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی اور پہلی بار کسی میگا ایونٹ میں پانچ میچوں میں شکستوں کا داغ اپنے دامن پر لگوا لیا۔ اس غیر معیاری کارکردگی پر قومی ٹیم ورلڈ کپ کے مسلسل تیسرے ایڈیشن میں بھی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by ICC (@icc)

ورلڈ کپ میں جانے سے قبل بڑی بڑی باتیں کرنے والے بولرز بری طرح ناکام رہے اور ان کے دعووں کی قلعی کھل گئی جب کہ عالمی نمبر ایک ٹیم اور عالمی نمبر ایک بیٹر بھی صرف یہ ٹیگ ہی لگائے رکھے کارکردگی اس کے برعکس رہی جس نے یہ اعزازات بھی ان سے چھین لیے۔ ورلڈ کپ میں شاہین شاہ نے 18 اور حارث رؤف نے 16 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن اس کے لیے رنز کی گنگا بہا دی۔ حارث رؤف نے 9 میچز میں 16 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن اس کے لیے 533 رنز دے کر کسی بھی میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز دینے کا منفی ریکارڈ اپنے نام کر گئے وہ سب سے زیادہ چھکے کھانے والے بولر بھی رہے جنہیں 16 چھکے پڑے۔ اسپنرز نے حریف بیٹرز کی چاندی کروا دی، سری لنکا کے بعد ورلڈ کپ کی دوسری بدترین پرفارمنس رہی جو صرف 12 وکٹیں ہی لے سکے۔ بد ترین بولنگ پرفارمنس ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ میں پاکستان کا سب سے زیادہ رنز کھانے والا بولنگ یونٹ بن گیا۔

یہ وہ ایونٹ رہا جس میں سابقہ تمام ورلڈ کپ ٹورنامنٹس کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ دو بار ایک اننگ میں 400 سے زائد رنز اسکور کیا گیا جس میں ایک بار جنوبی افریقہ نے سری لنکا کے خلاف 428 رنز جب کہ دوسری بار نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف 401 رنز بنائے۔ 20 بار ٹیموں نے 300 پلس کا ہدف دیا لیکن ہماری ٹیم صرف دو بار ہی 300 سے اوپر جا سکی۔ اس ایونٹ میں جہاں آسٹریلیا اور انڈیا نے مخالف ٹیموں کے خلاف 309 اور 302 کے بڑے مارجن سے فتوحات حاصل کرکے اپنے رن ریٹ کو بڑھایا وہیں ہماری سب سے بڑی فتح 81 رنز سے رہی جو سب سے کمزور ٹیم نیدر لینڈ کے خلاف تھی۔ پاکستان کے ابتدائی میچ میں اس گراؤنڈ میں جہاں 300 اور 350 سے زائد رنز اور کمزور حریف کو ایک بڑے مارجن سے ہرانا تھا وہاں کپتان کا ٹاس جیت کر 280 رنز اسکور بہت قرار دینا ان کی سوچ کی عکاسی کرتا تھا اور یہی سوچ شاید پاکستان کو لے ڈوبی۔

ورلڈ کپ میں کئی ٹیموں اور کھلاڑیوں نے ریکارڈ بنائے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے پاس سوائے ایک دو کے تمام ریکارڈ منفی ہی ہاتھ آئے جو مثبت ریکارڈ بنے وہ سری لنکا کے خلاف 345 رنز کا ہدف عبور کرنا جو ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا دوسرا فخر زمان کا ایک اننگ میں سب سے زیادہ 11 چھکے لگانا اس کے علاوہ حارث رؤف کا ایونٹ کا سب سے مہنگا بولر، سب سے زیادہ چھکے کھانے والے بولر، بولرز کا بھاری اکانومی ریٹس جیسے کئی ریکارڈز دامن کا داغ بن گئے۔

عالمی کپ کے 13 ویں ایڈیشن میں جہاں دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں نے تن تنہا کئی کئی سنچریاں اسکور کیں کوئنٹن ڈی کاک (4)، روہت شرما (3) سنچریاں بنا گئے وہاں ہماری پوری ٹیم کی جانب سے صرف تین سنچریاں ہی سامنے آئیں جب کہ ہمارے عالمی نمبر ون بیٹر (جو اپنی ناقص کارکردگی کے باعث نمبر ون نہیں رہے) بابر اعظم تو ایک بھی سنچری نہیں بنا سکے۔ میگا ایونٹ کے ٹاپ بلے بازوں میں ورلڈ کپ میں دور دور تک ہمارے کسی بیٹر کا نام نہیں اور پہلا نام محمد رضوان کا ہے جو بارھویں نمبر پر ہے جب کہ کپتان تو اس سے کہیں نیچے 21 ویں نمبر پر ہیں۔

دیگر ٹیموں اور پاکستانی ٹیم کی کرکٹنگ سوچ اور انداز دیکھنا ہے تو بیٹنگ ایوریج اور اسٹرائیک ریٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ورلڈ کپ میں جہاں دیگر ٹیموں نے ماڈرن کرکٹ کھیلی اور ون ڈے کو ٹی ٹوئنٹی بنا دیا ویرات کوہلی کی بیٹنگ ایوریج 109.20 رہی۔ نیوزی لینڈ کے کپتان ولیمسن نے تین میچز کھیلے مگر بیٹنگ ایوریج 93.50 اور میکسویل کی 79.4 رہی اس میں ہمارے پاس صرف فخر زمان کا نام آتا ہے جو تین میچوں میں 73.33 کی اوسط سے رنز بنانے میں کامیاب رہے جب کہ پاکستان کی بیٹنگ میں ستون کہلانے والے رضوان 65.83 اور کپتان بابر اعظم 40 کی اوسط سے ہی رنز بنا سکے۔ اسٹرائیک ریٹ جہاں دنیا کے دیگر بلے بازوں نے 100 سے بلند ہی رکھا جیسا کہ میکسویل 152، ٹریوس ہیڈ 144، کلاسن ساوتھ 144، مچل سینٹنر نیوزی 132 کے ساتھ سر فہرست۔ وہاں صرف پاکستان کے فخر زمان ہی 122 کے ساتھ قابل قدر دسویں نمبر پر نظر آئے جب کہ بابر اور رضوان کا اسٹرائیک ریٹ 82 اور 95 رہا جو خود سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان ٹیم نے ورلڈ کپ میں 34 کی اوسط سے رنز بنائے اور اسٹرئیک ریٹ میں بھی ٹاپ ٹیموں سے پیچھے رہی۔ پاکستان ٹیم کی بیٹنگ لائن کے استحکام کا تو یہ حال رہا کہ قومی ٹیم کھیلے گئے 9 میچز میں سے 5 میچز میں تو پورے 50 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور نیدر لینڈ کے بولرز بھی ہماری پوری ٹیم کو 49 ویں اوور میں پویلین بھیجنے میں کامیاب رہے۔

دنیا کی بہترین ٹیموں کا رن ریٹ پلس میں ہے جب کہ پاکستان کا آسٹریلیا سے شکست کے بعد جو رن ریٹ منفی ہوا تھا اس کو منفی میں ہی رکھا۔ کئی بار مواقع آئے رن ریٹ کو مثبت کرنے کے مگر پاکستان نے ان کو گنوا دیا۔ اگر افغانستان آسٹریلیا کو شکست دے دیتا یا آخری میچ میں جنوبی افریقہ سے کم مارجن پر ہارتا تو شاید پاکستان کی پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن بھی نہ ہوتی اور وہ افغانستان سے نیچے چلی جاتی۔

کسی بھی مہم کو سر کرنے کے لیے جوش وجذبے کے ساتھ اخلاص کے ساتھ ہدف پر نظر ہوتی ہے لیکن جہاں ملکی مفاد سے زیادہ اقربا پروری، رشتے داریاں اور دوستیاں نبھائی جانی لگیں تو پھر وہاں یہی حال ہوتا ہے جو ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کا ہوا۔ حارث رؤف ناکام ہوئے لیکن ایک میچ میں بھی باہر نہیں بٹھایا گیا جب کہ فخر زمان کو ان فٹ قرار دے کر چار میچوں میں باہر کر کے قومی ٹیم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ شاداب خان مسلسل ناکام رہے جب ان فٹ ہوئے تو پاکستان کے پاس ریزرو سے ابرار احمد کو لینے کا نادر موقع تھا لیکن شاید یہاں بھی کسی کی ممکنہ کامیابی سے دوستی کا چراغ گل ہونے کا خدشہ یہ فیصلہ نہ کرا سکا۔

چیئرمین پی سی بی کا میگا ایونٹ کے دوران متنازع انٹرویو سے شروع ہونے والا ٹیم کی تنزلی کا سفر ورلڈ کپ سے خالی ہاتھ واپسی پر ختم تو ہو چکا لیکن دنیا ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان کو آنے والے دنوں میں بڑی کرکٹ کھیلنی ہے جس میں آئندہ سال ہونے والا ٹی 20 ورلڈ کپ بھی ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کرکٹ کے بڑوں کو قومی کرکٹ کو درست سمت دینے کے لیے سنجیدگی سے سوچے اور سابقہ ناکامیوں کے بعد قلیل المدتی اور ایڈھاک بنیادوں پر آرٹیفیشل فیصلے کرنے کے بجائے ایسے طویل المدتی فیصلے کرنے چاہئیں جس سے پاکستان کرکٹ کو نئی جہت مل سکے اور وہ فتوحات پر دوبارہ گامزن ہوکر دنیائے کرکٹ میں ٹاپ کرکٹنگ ممالک کا کھویا ہوا اعزاز دوبارہ حاصل کر سکے کیونکہ یہ ملک میں واحد کھیل ہے جو پوری قوم کو متحد کر دیتا ہے اگر اس کی بہتری اور ترقی کے لیے موثر اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ کہیں اس کا حشر بھی قومی کھیل ہاکی اور اسکواش کی طرح نہ ہو جائے جس کا کبھی پوری دنیا میں طوطی بولتا تھا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں